سائنسی مہم کی 100سالہ پرانی فلمیں عام کی جارہی ہیں
لندن (بی بی سی) برطانیہ کی رائل جیوگرافکل سوسائٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ 20 ویں صدی کی سائنسی مہم جوئیوں کی فلمیں عام کر رہی ہے۔ یہ فلمیں جن کو رائل جیوگرافکل سوسائٹی نے سپانسر کیا تھا کو ڈیجیٹائز کر کے انٹرنیٹ پر ڈالا جائے گا۔ ان میں سے کچھ فلمیں ایک سو سال پرانی ہیں جو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ان فلموں میں سے ایک ماو¿نٹ ایورسٹ کی چوٹی کی ہے۔ اس فلم کو 1933 میں میجر لیتھم ویلنٹائن سٹیورٹ بلیکر نے بنایا تھا۔ میجر لیتھم سابق جنگی جہاز کے پائلٹ تھے۔'رائل جیوگرافکل سوسائٹی کے پاس 20 لاکھ سے زیادہ فلمیں، نقشے، تصاویر، اشیا، ڈائریاں، نوٹ بکس اور جریدے موجود ہیں۔ اور فلموں کا یہ خزانہ برٹش فلم انسٹیٹیوٹ میں رکھی ہوئی ہیں۔'سب سے زیادہ حیران کن فلم تبت کی ہے جس کو 1922 میں بنایا گیا۔ یہ فلم فجی آفیسر کیپٹن جان نوئل نے بنائی تھی جو ماو¿نٹ ایورسٹ کو پہلی بار سر کرنے کی کوشش میں تھے۔ انہوں نے یہ فلم ایورسٹ جاتے ہوئے راستے میں خانقاہ میں بنائی تھی۔ یہ وہ خانقاہ ہے جہاں کوہ پیما چوٹی سر کرنے سے قبل جاتے تھے۔ ان کوہ پیماو¿ں کو خصوصی مہمانوں کا درجہ دیا جاتا تھا اور رسومات میں رقص، کہانیاں سنانی شامل ہیں۔ ہزاروں میل دور پائلٹ اوبری رکرڈز نے یمن میں قدیم تہذیب حضرموت کو فلمبند کیا۔ فلم میں چونکا دینے والے سین ہیں جن میں 16 ویں صدی میں مٹی سے بنی بلند عمارتوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ عمارتیں 11 منزلہ ہیں اور یہ عمارتیں آج بھی موجود ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پہلی بار انسانوں نے اکٹھے رہنا سیکھا۔ حضر موت کو کئی بار 'صحرا کا مینہیٹن' کہا جاتا ہے۔ شاید سب سے متاثر کن فلموں میں سے وہ فلمیں ہیں جو دو نوجوان مہم جوئیوں جارج شیرف اور فرینک لڈلو نے 1930 کی دہائی میں بھوٹان اور تبت کے سفر کے دوران بنائیں۔ ان دونوں دوستوں نے سوچا کہ انہوں نے ہمالیہ میں جنت دریافت کر لی ہے۔ انہوں نے سادہ زندگی، خوش انسانوں، صحت مند اور لمبی عمر جینے والے افراد کی فلمیں بنائیں۔