شام: تصویر اتارنے پر معصوم بچی نے کیمرے کو بندوق سمجھا، ہاتھ بلند کئے، ہونٹ بھینچ لئے آنکھوں میں خوف نے ساری حقیقت بیان کردی
لندن (بی بی سی) انٹرنیٹ پر پچھلے چند دن سے ایک تصویر گردش کر رہی ہے جس میں ایک شامی بچی کو ہاتھ سر سے بلند کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس تصویر کے پیچھے کی کہانی کیا ہے؟ بظاہر بندوق کی نالی میں جھانکتی اس بچی کی آنکھ میں خوف کے سائے دکھائی دئیے لیکن وہاں کوئی بندوق نہ تھی بلکہ وہ براہِ راست کیمرے کے عدسے کو دیکھ رہی تھی جسے وہ بندوق سمجھ بیٹھی۔تصویر ٹوئٹر پر سب سے پہلے غزہ کی ایک فوٹو جرنلسٹ نادیہ ابوشعبان نے شیئر کی اور 11 ہزار افراد نے اسے ری ٹویٹ کیا جن میں سے کچھ کے خیال میں یہ ’انسانیت کی ناکامی کی دلیل‘ تھی تو کچھ اسے دیکھ کر انتہائی افسردہ ہوگئے۔ ابوشعبان نے تصدیق کی کہ یہ تصویر انھوں نے نہیں کھینچی اور وہ یہ بھی نہیں جانتی تھیں کہ اسے کھینچنے والا کون تھا۔ پھر تصاویر شیئر کرنے والی ویب سائٹ امگور نے اس راز سے پردہ اٹھایا کہ تصویر ترک فوٹو جرنلسٹ عثمان صغیرلی کی ہے۔ فی الوقت تنزانیہ میں کام کرنے والے عثمان نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ تصویر ایک چار سالہ شامی لڑکی حدیہ کی ہے جسے گذشتہ برس دسمبر میں شام میں ایک مہاجر کیمپ میں کھینچا گیا تھا۔ عثمان کا کہنا ہے کہ ’میں ایک ٹیلی فوٹو لینس استعمال کر رہا تھا اور وہ سمجھی کہ یہ کوئی ہتھیار ہے۔‘ ان کے مطابق ’عموماً بچے کیمرے کو دیکھ کر یا تو بھاگ جاتے ہیں یا چہرہ چھپا لیتے ہیں یا پھر مسکرا دیتے ہیں اور مجھے بچی کے خوفزدہ ہونے کا احساس تصویر کھینچنے کے بعد اسے دیکھنے پر ہوا۔وہ اپنا ہونٹ کاٹ رہی تھی اور اس نے ہاتھ بھی بلند کیے ہوئے تھے۔‘ عثمان نے کہا کہ ان پناہ گزین کیمپوں میں بچے صحیح صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ ’یہ بچے ہی ہوتے ہیں جو معصومیت میں حقیقت بیان کر دیتے ہیں۔