وہ 30 مئی 1431ء کا دن تھا۔’’رواں‘‘بازار میں ایک لڑکی کو زندہ جلتے دیکھنے کیلئے ایک اژدہام تھا۔ ’’انکوزیشن‘‘کے جلاد ایک 19 برس کی لڑکی کو گھسیٹتے ہوئے لے کر آ رہے تھے۔انکوزیشن کلیسا کا ایک بدنام ترین ذیلی ادارہ تھا جس میں کلیسا کے باغیوں کو اذیت دیکر مارا جاتا اور کہا جاتا تھا کہ ایسا کرنے سے ان لوگوں کی روح عذاب سے بچ جاتی ہے۔ لڑکی کو انھوں نے بازار کے وسط میں نصب ٹکٹکی سے باندھ دیا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک پادری اونچے چبوترے پر کھڑا ہوا اور بلند آواز میں چلایا:’’لڑکی جادوگرنی ہے، اسی لیے اسکی روح کو بچانے کیلئے اسے جلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘‘ اسکے ساتھ ہی آگ اس کی طرف بڑھنے لگی اور چند لمحوں میں آگ کے بھیانک شعلوں نے اسے بے رحمی سے نگل لیا۔یہ لڑکی 1412ء میں فرانس کے ایک گاؤں ڈومرمی میں ایک کسان کے گھر پیدا ہوئی۔اس نے فرانس کی تاریخ پر گہرا اثر ڈالا اور فرانسیسیوں میں آزادی کی روح پیدا کی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب فرانس پر انگریز اپنا قبضہ مضبوط کرنا چاہتے تھے جبکہ فرانس کا شاہی خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ چنانچہ جب انگریزوں نے بچے کھچے فرانس پر حملہ کیا اور فرانسیسیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے تو جون نے دعویٰ کیا کہ اسے غیب سے آوازیں آئی ہیں کہ اپنے ہم وطنوں کو انگریزوں کے ظلم و ستم سے بچاؤ اور فرانسیسی بادشاہ ڈوفن چارلس کے ہاتھ مضبوط کرو۔ اس نے اپنے علاقے کے گورنر سر رابرٹس سے غیبی آوازوں کا تذکرہ کیا، شروع میں تو سر رابرٹس نے بھی اسکی باتوں پر کوئی دھیان نہ دیا مگر جب اس نے جون کا جذبہ دیکھا تو اس کو ولی عہد ڈوفن کے پاس بھیج دیا ۔ اس زمانے میں فرانس کے لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ ایک بزرگ جنھیں وہ لوگ(Prophet OF Merlin) کہتے تھے، آئینگے اور فرانس کے لوگوں کی مدد کرینگے۔ ان حالات میں لوگوں نے جون کو وہی بزرگ سمجھ لیا۔آخر کار وہ لوگ ولی عہد ڈوفن کے دربار تک پہنچ گئی۔ڈوفن اسکی باتوں سے متاثر ہوااور جون کو فوج کی کمانڈ دے دی۔ جون نے 10 اپریل 1428ء کو فوجی وردی پہنی ، دس ہزار فرانسیسی فوجیوں کو ساتھ لیا اور اورلینز کے شہر پر حملہ کرکے انگریزوں سے چھڑا لیا۔ 1428ء میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن کے باعث فرانس کا بشپ جین لمٹائر جون کا دشمن ہو گیا۔ وہ جون سے حسد کرتا تھااور پھر وہ دن بھی آگیا کہ پادریوں اسے جادوگرنی قرار دیکر اسے جلا ڈالا۔ اسکے مرنے کے سات سال بعد Paris پر فرانس کا قبضہ ہوگیا۔کچھ عرصے بعد تمام فرانس انگریزوں کے قبضے سے چھڑا لیاگیا۔
بزرگ ،تجربہ کاراور سینئر کہلانے کیلئے عمر رسیدہ ہونا ضروری ہے، بڑا آدمی بننے کیلئے عمر کی کوئی ایسی قید نہیں ہے۔ ہمارے سامنے نوعمری میں بڑے کارنامے کر دکھانے کی مثالیں موجود ہیں۔ محمد بن قاسم، ظہیر الدین بابر نے لڑکپن میں تاریخ رقم کر دی تھی۔ عمر رسیدہ اور بزرگ ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تاریخ میں نام درج کرانے کا موقع نہیں رہتا۔ تاریخ بدلنے کا کسی بھی عمر میں موقع مل سکتا ہے۔ نیلسن منڈیلا کو آخری عمر میں موقع ملا تو انہوں نے اپنے ملک میں نسل پرستی کی لعنت کو ختم کر دیا۔ طیب اردگان نے فوج کو اسکے اصل کردار تک محدود کر دیا۔ عمران خان کے حصے میں اُس ٹیم کی کپتانی آئی جس نے ورلڈ کپ جیتا اب وہ سیاست میں کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں۔ وہ 62 سال کے ہو گئے، ابھی جوانوں کی طرح فٹ ہیں۔ نوجوانوں کی قیادت کرتے ہیں مگر عمر کے لحاظ سے بابوں میں شمار ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی کرپشن اور عوام کش پالیسوں کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہوا لیکن وہ خود کو عوام کا نجات دہندہ ثابت نہ کر سکی۔ اس کا فائدہ عمران خان اٹھا رہے ہیں۔ انکے دھرنوں اور جلسوں میں لوگ حُبِ علی میں کم، بُغض معاویہ میں زیادہ آتے ہیں۔ عمران خان کو کرکٹر سے لیڈر مسلم لیگ (ن) نے بنایا۔ 2013ء کے انتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی کو مسترد کر کے مسلم لیگ (ن) پر اعتماد کااظہار کیا۔ ان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو الزام برائے الزام نہیں کہا جا سکتا۔ دھاندلی ضرور ہوئی، کس کے ایما پر ہوئی یہ الگ ایشو ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ معاملہ منطقی انجام تک پہنچانے کا ذمہ اٹھایا اور ایک روز کی سماعت کے بعد خود کو اس معاملے سے الگ کر لیا۔ پٹیشن انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درج ہوئی تھی، سپریم کورٹ ان انتخابات کی ساکھ کا فیصلہ کر دیتی تو سیاسی بحران اور ڈیڈ لاک ختم ہونے کا امکان تھا۔ اب عمران خان کے دھرنے کب اور کیسے ختم ہونگے ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں۔
2013ء کے الیکشن میں دھاندلی تو ہوئی لیکن اس سطح کی نہیں کہ آج کے سیٹ اپ میں کوئی فرق پڑ سکتا۔ زیادہ سے زیادہ 15 سے 20 نشستوں پر بے ضابطگیاں ہوئی ہونگی ۔ چند نشستوں پر بدمعاشی سے نتائج بدلے گئے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ دھاندلی کی زد میں صرف پی ٹی آئی ہی آئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) جیسے بھی جیتی، بالفرض اسکو انجینئرڈ طریقے سے جتایا گیا۔ الیکشن کے بعد یہ انتخابی نتائج کو اپنی حمایت میں آسانی سے بدل سکتی تھی لیکن نالائق مشیروں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کا کرپشن کے باعث چھوڑا ہوا سیاسی خلا عمران خان کو پُر کرنے کا موقع مل گیا۔ عمران کو اگر اقتدار مل گیا تو انکی جبلت کے مطابق آج انکے گرد نظر آنے والوں میں 80 فیصد لوگ فارغ ہو جائینگے۔ عمران خان زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس سال سیاست میں فعال رہ سکتے ہیں ان کو موقع ملتا ہے تو ملک سنوارنے کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ طاہر القادری صاحب بھی عمران کی عمر کے بزرگ ہیں، مستقل مزاج نہ ہونے کے باعث ان کا سیاست میں مستقبل تاریک ہے۔ سیاست مروجہ ڈگر پر چلتی رہی ہے، پالیسیوں میں بیرونی مداخلت کارفرما رہی تو ملالہ یوسف زئی کے ہاتھ میں سیاسی قیادت آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس کے پاس دس پندرہ سال نہیں بلکہ سیاست کیلئے نصف صدی سے بھی زیادہ کا وقت موجود ہے۔
نواز شریف اور آصف علی زرداری کو عوام نے آزما لیا،مستقبل میں قوم شاید اپنی قسمت کے فیصلے انکے ہاتھ میں نہ دیں البتہ انکے جانشینوں کو موقع ملا تو وہ اپنے بڑوں کے سیاسی گناہوں کا کفارہ ادا کر سکتے ہیں۔ بلاول کے بارے میں زرداری صاحب کی دوستوں سے شکایت کا میڈیا میں تذکرہ ہوا کہ وہ اپنے ابا جی کی بات نہیں مانتا۔ اگر ایسا ہے تو یہ بلاول کی سیاست میں کامیابی کا سبب بن سکتا ہے۔ آصفہ کو اپنی والدہ کی کاپی اورصحیح جانشین کہا جاتا ہے۔ آصفہ اگر بلاول کو کراس کر جاتی ہیں تو بھی پاکستان کی سیاست میں تبدیلی ممکن ہے۔ بلاول اور آصفہ کے پاس بھی سیاست کیلئے بہت وقت پڑا ہے۔ اگر سیاست میں جائیداد کی طرح وراثت کی بات کی جائے تو پیپلز پارٹی کی وارث فاطمہ بھٹو یا اس کا بھائی ذوالفقار بھٹو جونیئر ہے۔ زرداری دولت کے انبار لگانے کی ذہنیت کے باعث خود کو بھٹوز کا درست جانشین ثابت نہیں کر سکے، یہ خلا بدستور موجود ہے مگر اصل وارث یہ خلا پُر کرنے کی کوشش نہیں کر رہے یا اہلیت ہی نہیں۔ بہرحال حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔
بلاول اور آصفہ کی طرح مریم نواز شریف پر بھی کرپشن، ذاتی کاروبار کو فروغ دینے کیلئے سیاسی مشینری استعمال کرنے کے الزامات نہیں ہیں۔ اگر سیاست میں اولاد کو وارث بنانے کی روایت قائم رہتی ہے تو مریم نواز شریف مسلم لیگ (ن) کو آ گے لے جا سکتی ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں صلاحیتوں کا پتہ اقتدار میں آنے کے بعد چلتا ہے۔یہ لوگ ہماری سیاست کے ’’حاسد پادریوں‘‘ سے محفوظ رہے تو ہی ملک وقوم کیلئے کچھ کر سکیں گے ۔ حاسد تو جون آف آرک جیسی جرنیل شخصیت کو بھی جلا ڈالتے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024