سبز پرچم والے اس ملک میں ابھی بھی ایسے زرد علاقے ہیں جہاں کے رہنے والوں کو 21ویں صدی تو کیا 10ویں صدی کی سہولتیں بھی مشکل سے مل رہی ہیں۔ ایسی جگہوں کا ذکر ہم عموماً بلوچستان، فاٹا اور اندرونِ سندھ وغیرہ کے حوالے سے سنتے ہیں لیکن ترقی یافتہ پنجاب میں بھی کچھ ایسے حصے ہیں جن کا مقابلہ بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا کی زمانہ قدیم کی جگہوں سے کیا جائے تو پنجاب کے یہ علاقے بھی مقابلہ نہ ہاریں۔ پے در پے پاکستانی حکومتوں کی عدم توجہی اور چھوٹے موٹے جاگیرداروں کی بے برکتی کے باعث خوشاب بھی ایک ایسا ہی ضلع ہے جو زمانہ قدیم کے غیرترقی یافتہ علاقوں کی مثالوں میں ٹاپ ٹین میں آسکتا ہے۔ یہ وہی خوشاب ہے جس کے قریب بہتے دریا کا پانی پی کر مغل بادشاہ بابر نے اسے ’’خوش آب‘‘ کا نام دیا تھا لیکن اب وہی دریا ئے جہلم بے آب ہوتا جارہا ہے۔ خوشاب کی صحرائی ریت، سیم زدہ مٹی، دلدل، زیرزمین کڑوے پانی، سنگلاخ پہاڑوں، خشک میدانوں اور بے آب ہوتے دریائے جہلم کے باوجود یہاں کے رہنے والے صلاحیتوں اور ہمتوں سے خالی نہیں ہوئے جس کی مثال سیاست، فوج، سول بیورو کریسی، پولیس، ادب، صحافت، وکالت، فنون لطیفہ، کاروبار، ٹیکنالوجی، میڈیکل اور تعلیم وغیرہ یعنی ہرشعبے میں چمکنے والے ضلع خوشاب کے روشن ستارے ہیں۔ خوشاب کے لوگ بے آب تو ہوئے ہی، بے یارو مددگار بھی ٹھہرے۔ اُن پر خوش قسمتی اور بدقسمتی ایک ساتھ راج کرتی ہے۔ خوش قسمتی اس لئے کہ حکومت کوئی بھی ہو، اُس کا کوئی نہ کوئی وفاقی یا صوبائی وزیر ضلع خوشاب سے ضرور ہوتا ہے۔ بدقسمتی اس لئے کہ ہمیشہ سے وزارتی تاج والے اِس ضلع سے ووٹ لینے والے کسی بھی بے وفا نے اپنے حلقے کی عوام سے وفا نہیں کی۔ضلع خوشاب کے اہم تاریخی مقامات وادیٔ سون سکیسر،کٹھا سگرال،مٹھا ٹوانہ اورہڈالی وغیرہ کا ذکر کیا کریں؟یہاں کے دو بڑے شہروں خوشاب اور جوہرآباد کی شہری سہولتیں بھی موہنجوداڑو اور ہڑپہ جیسے آثارِ قدیمہ کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اس ضلع میں ایک شہر قائدآباد بھی ہے جس کے منفرد قالین دنیا بھر میں مشہور تھے لیکن اب مشہوری صرف ہسٹری میں رہ گئی ہے کیونکہ قالین فیکٹری ہڑپ ہوچکی ہے۔ ضیاء الحق دور کے سٹرانگ وفاقی وزیر تعلیم اور وفاقی وزیر داخلہ ملک نسیم احمد آہیر جن کا نام مشرف حکومت میں بھی گورنر پنجاب کے لئے زیر غور رہا خوشاب کے بزرگ سیاست دان ہیں۔ انہوں نے اپنے دور میں ضلع خوشاب میں سرسید یونیورسٹی قائم کرنے کا ارادہ کیا لیکن اُن کی وزارت اور سرسید یونیورسٹی دونوں اب خواب ہوئے۔ بعد میں آنے والے ارکان اسمبلی اور وزراء کو یہاںکے لیے اعلیٰ تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کی کوئی فکر نہیں مگر آفرین ہے ضلع خوشاب کے لوگوں پرکہ انہوں نے اپنی پسماندگی کو اگلی نسلوں تک نہ پہنچانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسی لئے ضلع خوشاب کے پیارے لوگ اپنی حیثیت سے بڑھ اپنے بچوں کو جدید تعلیم دلوا رہے ہیں۔ ضلع خوشاب کے صحافی عوام کے مسائل اجاگر کرنے کے لیے قابل فخر کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں جوہرآباد میونسپل کمیٹی کو معزز گھرانے کے ایک پرعزم چیئرمین ملک اشرف کی قیادت ملی ہے۔ انہوں نے بے سروسامانی اور فنڈز کی خالی تجوری کے باوجود اپنی ہمت اور مشنری جذبے کے ساتھ جوہرآباد کی حالت بدلنا شروع کردی ہے۔ اسی وجہ سے ملک اشرف شہباز شریف اور ن لیگ کی نیک نامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسے ہی سیاسی ورکروں کی وجہ سے ن لیگ اس ضلع میں کامیاب ہوتی ہے۔ دوسری طرف حکومت وقت کے دلوں سے دور ضلع خوشاب کے کنارے سے جڑے صحرا پر واقع تحصیل نورپور تھل ہے۔ مشہور افسانوی داستانوں میں جگہ پانے والے اس صحرائی شہر نورپور تھل سے مزید 35 کلومیٹر صحرا میں اترتے جائیں تو ضلع کی آخری حدود پر تقریباً 26 ہزار انسانوں پر مشتمل جمالی یونین کونسل کی حدود میں ایک بستی ’’دادووالا‘‘ آباد ہے۔ بین الاقوامی فنڈز کو استعمال کرنے کے لئے جب 1987ء میں غریب پاکستان کے مزید غریب علاقوں پر بنیادی صحت مراکز قائم کرنے کا احسان کیا جارہا تھا تو دادووالا پر بھی ترس کھاکر ایک BHU کی منظوری دی گئی لیکن برس ہا برس تک عملے کی تعیناتی نہ ہونے اور عمارت کی عدم دستیابی کے باعث یہاں کے حب الوطن مریض عطائیوں کے رحم و کرم پرہی رہے۔ حکومتی عدم دلچسپی کو دیکھ کر دادووالا کے ایک مخیر کھارا خاندان نے 16 کینال ذاتی قیمتی زمین BHU کو عطیہ کردی اور ایک دوسری نجی عمارت میں وقتی BHU شروع کروا دیا۔ وہاں کے ایک نامور وکیل اور سماجی کارکن محمد زوار حسین کھارا ایڈووکیٹ نے سب حکومتی دروازوں پر دستک دی کہ دادووالا BHU کو عطیہ کی گئی زمین پر مختصر سی بلڈنگ بنادی جائے۔ انہوں نے اپنی درخواستوں میں یہ بھی بتایا کہ ضلع خوشاب کے تمام BHUs میں دادو والا ایسا BHU ہے جس میں سب سے زیادہ مریض آتے ہیں۔ وکیل صاحب کی مسلسل درخواستوں کے باعث ضلعی انتظامیہ نے ایک مرتبہ PMDGP فنڈز سے عمارت تعمیر کرنے کا سوچا لیکن منطقی ضلعی بیوروکریسی نے اِسے گائیڈ لائنز کے خلاف قرار دے دیا۔ اسکے علاوہ محتسب پنجاب ریجنل آفس سرگودھا نے محمد زوار حسین کھارا ایڈووکیٹ کی درخواست پر مذکورہ بلڈنگ کی تعمیر کے لئے محکمہ صحت پنجاب کو 2010-11ء کے بجٹ میں سے ایک مہینے کے اندر فنڈز مہیا کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم ہرطرح کی جدوجہد کے باوجود 30 برس گزرنے کے بعد بھی دادووالا BHU کو اب تک عمارت نصیب نہیں ہوسکی ہے۔ محکمے والوں کا افسوسناک اعتراض یہ ہے کہ دادووالا تک کوئی پکی سڑک نہیں جاتی اس لئے ٹھیکیدار وہاں بلڈنگ بنانے سے ہچکچاتے ہیں۔ یہ پنجاب کا شاید واحد BHU ہے جس کی اب تک اپنی بلڈنگ نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں جادوئی انتظامی صلاحیت رکھنے والے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بہاولپور کے قریب قائداعظم سولر پارک کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے ترقیاتی کاموں کو دیکھ کر خوشی سے ٹویٹ کیا۔ اگر کبھی وہ دادووالا کے اوپر سے پرواز کریں گے تو ہوسکتا ہے حیرانگی سے ٹویٹ کریں کہ ’’صحرا میں حرکت کرتے ہوئے یہ افراد کس دنیا کی مخلوق ہیں؟‘‘ وزیراعظم نواز شریف غیرترقی یافتہ علاقوں میں جاکر بنیادی انسانی سہولتوں کی فراہمی کے لئے خزانوں کے منہ کھول رہے ہیں۔ وہ اندرونِ سندھ اور گوادر جارہے ہیں، کبھی ضلع خوشاب بھی آئیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024