پاکستان مسلم لیگ (ن) صوبہ پنجاب میں چھٹی جبکہ مرکز میں تیسری دفعہ صاحب اقتدار ہے۔ گذشتہ تیس سالہ اقتدار کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ شریف برادران کا اندازِ سیاست ہے یا المیہ کہ جب بھی وہ اقتدار میں آئے انہوں نے پاکستان مسلم لیگ کو ایک سیاسی پارٹی بنانے پر زور دینے کی بجائے برادری ازم اور اقربا پروری کو پہلی ترجیح دی۔ یہ شاید میاں محمد نوازشریف صاحب کی تحریکِ استقلال کے پلیٹ فارم سے بلدیاتی الیکشن ہارنے کی وجوہات تھیں کہ انہوں نے 1985ءکے غیر جماعتی الیکشن میں گورنر جیلانی کی مدد سے جب پنجاب کا عنانِ اقتدار سنبھالا تو انہوں نے ایک قومی لیڈر بننے کی بجائے اور قومی سیاست اپنانے کی بجائے لوکل اور مقامی برادری ازم پر تکیہ کیا۔ایک اندازے کیمطابق صرف 1985ءاور 1988کے درمیان اکیس ہزار کشمیری برادری سے متعلقہ نوجوان مختلف عہدوں پر بھرتی کیے۔ واضح رہے میاں نوازشریف صاحب کے سیاسی اتالیق جنرل ضیاءالحق (مرحوم)نے بھی سیاست میں برادری ازم کے ناسور کو فروغ دیا۔ اس زمانے میں تارکین وطن آرائیں برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو پرکشش مراعات کا لالچ دے کر کلیدی عہدوں پر تعینات کیا گیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ نوازشریف صاحب نے اس تکنیک کو اپنا آئیڈیل بنا لیا۔ میرے وہ قاری حضرات جن کو اس بات کی صداقت پر کوئی رتی بھر بھی شک ہے وہ اس دور کے تمام بھرتی کیے گئے افراد کا ریکارڈ چیک کر لیں حتیٰ کہ 1985ءکے بعد اب تک مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس دوران ہونےوالے تمام جنرل الیکشن میں یا تو اپنے قریبی رشتے داروں یا پھر برادری سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو پہلی ترجیح دی۔ زیادہ دور نہ جائیے گذشتہ منتخب ہونےوالی مسلم لیگ (ن) کی تین درجن سے زائد خواتین ایم پی ایز اور ایم این ایز میں سے 95 فیصد کا تعلق بھی کشمیری اور آرائیں برادری سے ہے جبکہ پنجاب کی صوبائی کابینہ اور مرکز میں کابینہ تشکیل دیتے وقت بھی انہی کلیات کا اطلاق کیا گیا۔قارئین گذشتہ تیس سال کی خانہ پُری کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دورانیے میں اگر قریبی عزیزوں یا رشتے داروں اور برادری میں سے کوئی مناسب امیدوار نہ ملا تو اس عہدے اور سیٹ کو خالی رکھا گیا اور وزیراعلیٰ پنجاب اپنی ہی پارٹی کے کسی دوسری برادری سے تعلق رکھنے والے ایم پی ایز کو کابینہ میں شامل کرنے کی بجائے ایک ہی وقت میں اٹھارہ مختلف محکموں کے وزیر بھی خود ہی رہے جبکہ مرکز میں وزارت خارجہ سمیت دیگر ایسے محکمے اور وزارتِ دفاع اور پانی اور بجلی ایک ہمہ وقت وزیر سے محروم ہیںاور حکومت کو پنجاب کی گورنر شپ کیلئے کوئی کشمیری پُتر نہیں مل رہا۔ اس لیے یہ عہدہ بھی دو ماہ سے خالی پڑا ہے اور سپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال کا دل سپیکر ہاﺅس میں نہیں لگتا تو انکی برسوں کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے کیوں نہ انہیں مستقل گورنر لگا دیا جائے۔ایک سروے کیمطابق کم از کم دو درجن ملکی کارپوریشنیں متعدد محکمے ابھی تک کلیدی عہدوں پر بھرتیوں سے محروم ہیں۔ قارئین یہ بھی عجیب بات ہے کہ جب بھی ملک میں ڈکٹیٹرشپ آئی تو انہوں نے ملک میں بلدیاتی انتخابات کو پہلی ترجیح دی جبکہ ہماری نام نہاد جمہوری حکومتوں نے اقتدار کو رشتہ داروں اور برادریوں تک محدود کرنے کیلئے ہمیشہ بلدیاتی الیکشن کرانے سے گریز کیا۔ خصوصاً گذشتہ سات سال کے دوران سپریم کورٹ کی رولنگ آنے کے باوجود حیلے بہانوں سے بلدیاتی الیکشن کی راہ میں روڑے اٹکائے کیونکہ ہمارے موجودہ حکمران یہ نہیں چاہتے کہ لوکل باڈیز الیکشن کے نتیجے میں اقتدار ملک کی دس ہزار یونین کونسلز اور اسکے تحت پانچ لاکھ منتخب اراکین تک پہنچ جائے۔یاد رکھیے دنیا بھر میں جہاں بھی جمہوریت اور ترقی نے اپنے پاﺅں جمائے اسکی بنیاد جمہوریتوں کا قیام ہے۔ گذشتہ دنوں جب ڈاکٹر طاہر القادری کے صاحبزادے ڈاکٹر حسن کینیڈا تشریف لائے تو ہماری متعدد ملاقاتوں میں سے کچھ ملاقاتیں گورنمنٹ کے کچھ اعلیٰ عہدے داروں سے بھی ہوئیں اور حسن بھائی نے منسٹر سے پوچھا کہ آپکی موجودہ ترقی اور نظام کی کامیابی کے پیچھے کونسی وجوہات ہیں تو آنرایبل منسٹر نے جواب دیا کہ مسٹر قادری آپ کو جو ہماری ترقی نظر آتی ہے اسکے پیچھے کینیڈا میں ملٹی کلچر سوسائٹی کا قیام کہ جسکے تحت کینیڈا میں رہائش اختیار کرنیوالے ہر شہری خود کینیڈین بن کر رہنا ہوتا ہے چاہے بیک ہوم اس کا تعلق کسی بھی مسلک، مذہب اور قوم سے ہو اور دوسری وجہ کینیڈا کا مضبوط لوکل باڈیز نظام ہے اور ہم نے مرکز کو چند محکمے دینے کے علاوہ مقامی حکومتوں کو اتنا مضبوط کر دیاہے کہ اب ہر مقامی حکومتیں اپنے وسائل اور اپنے ٹیکسز کا خود انتظام کرتی ہیں جبکہ مقامی حکومتوں کے رائج کردہ ٹیکس نظام نے کینیڈا کو دنیا کا امیر ترین ملک اور پینتیس ملین کینیڈین عوام کو خوشحال بنا دیا ہے۔
قارئین! مسلم لیگ ن اور پی پی پی ہی نہیں تحریک انصاف میں بھی برادری ازم کچھ اس طرح عود کر آیا ہے کہ جس سے تحریک انصاف جیسی مضبوط اور ابھرتی ہوئی ایک نئی قوت کی بنیادیں بھی کھوکھلی ہو گئی ہیں اور اسی چیز کو محسوس کرتے ہوئے عمران خان نے انٹراپارٹی الیکشن کالعدم قرار دے کر نئے الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے کیونکہ پنجاب کی قیادت سے لیکر مرکز میں تحریک انصاف کے کلیدی عہدوں یونین کونسلز، تحصیل، ضلع، اور ڈویژن کی سطح پر عہدے دار ایک مخصوص برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور ذرا سا بھی سیاسی فہم رکھنے والا ہر انسان تحریک انصاف میں پاﺅں جما چکی برادری ازم کی جڑوں کو دیکھ سکتا ہے۔ ہمیں ایک مضبوط پاکستان بنانے کیلئے برادری ازم اور اقرباءپروری کو خیر باد کہہ صرف اور صرف میرٹ کو اپنانا ہوگا ۔قارئین آج اگر ملک کا ایک اہل وزیر خارجہ اپنے عہدے پر کام کر رہا ہوتا تو وزراءسعودی عرب و یمن کے تنازعہ پر بھانت بھانت کی بولیاں نہ بول رہے ہوتے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024