’’کرپشن پر نا اہلی نہیں ہوئی‘‘ پہلے اقامہ کو وجہ بتایا۔ پھر پیسے نہ لینے کو مشہور کیا (بیٹوں سے)۔ اب کلمہ شکر چلا کہ کرپشن نا اہلی کی وجہ نہیں بنی۔
کیس ناانصافی۔ وہ جو ’’72 سالوں‘‘ سے محرومی کی زندگی جی رہے ہیں ان کے متعلق کیا خیال ہے؟؟ تحفظات کیوں؟ قانون، آئین سبھی کے لئے برابر ہے۔ یکساں اطلاق بنیادی حق ہے تو پھر امتیاز کیوں؟ عدالتی عمل کو توہین آمیز سلوک کہنا بذات خود توہین عدالت ہے، ناانصافی ہے دیکھا ارکان کی اکثریت نے (چاہے نااہل سہی) فیصلوں کی توثیق کر دی۔ ثابت ہو گیا کہ ہم بادشاہی دور میں رہتے ہیں۔ ’’خاندانی تخت‘‘ تبدیل نہیں ہوا۔ بس ’’چہرہ‘‘ بدلا ہے۔بات انصاف، ناانصافی کی نہیں۔ کہانی کچھ اور ہے۔ ’’سیاست‘‘ جتنی پرکشش منڈی ہے۔ اتنی ظالم ہے جب کروٹ بدلتی ہے تو زد میں ’’ڈھیروں مہرے‘‘ دب جاتے ہیں۔ کسی کی ہلکی سی چیخ بھی باہر نہیں نکلتی۔ کانوں کو سنائی بھی دے تو سننے کے باوجود لوگ چپ رہتے ہیں۔
35 سالوں سے برسر اقتدار پارٹی کی موروثی حکمرانی۔ خاندانی گدی رخصت ہو گئی۔ وہ کیسے۔؟؟ چھوٹے میاں کا اعلان تو ہو گیا۔ اعلان کی وجہ سے تو ٹکڑے بچ گئے۔ اطلاع تھی کہ ’’ق۔ن‘‘ سبھی حروف ایک ہونے جا رہے ہیں وہاں کچھ چھوٹے ٹکڑے برآمد ہونے کی خبر ہے۔
ابھی دن کتنے گزارے ہیں بہت کچھ پردہ غیب میں ہے۔ بہت کچھ بدلنے والا ہے۔ ’’63-62‘‘ پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ ممبران اسمبلی کی اکثریت ’’اقتدار کی راہداری‘‘ کے علاوہ کہیں اور چلنا پسند کرتی اور نہ ہی ماضی میں ایسی کوئی مثال ڈھونڈنے کو ملے گی۔ قانون، اخلاقی، اصولی تصویر یہ بنتی تھی کہ ’’حکومتی لیڈر‘‘ نا اہل ہونے پر عبوری حکومت قائم ہوتی۔ نئے الیکشن کا اعلان کر دیا جاتا۔ ویسے بھی چند ماہ باقی رہ گئے تھے۔ مگر افسوس اس بات کو سبھی ’’ذمہ دار اداروں‘‘ نے نظر انداز کیا۔ عوامی حقوق کی بے حرمتی کے بعد عوامی احساسات کچلنے کی یہ واحد مثال نہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ ایسے انگنت واقعات سے بھری پڑی ہے…
مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ کوئی اس طرح ’’پورے خاندان‘‘ سمیت پیش بھی تو نہیں ہوا۔
اب ہو گا کیا؟ ہونا کیا ہے۔ آئین کی من چاہی تعبیرات کی ڈھونڈی جا رہی ہیں۔ کسی طور پرامن ہونے کو دل نہیں مانتا تھا مگر قبول کرنا پڑا۔ قانون کسی نااہلیت کے شکار شخص کے سیاسی خطاب۔ سیاسی صدارت کی ممانعت کرتا ہے۔ نہیں مان رہے۔ بڑے فیصلے کر لئے۔ ماضی کی روایات برقرار رکھیں۔ یقین ہے کہ اس تمام عمل کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ بہت سارا مواد تیار ہے۔ ایک آدھ دن میں چیلنج ہو جائے گا۔ تو کیا چھوٹے میاں صاحب‘‘؟ دیکھو ۔ کیا صورت بنتی ہے۔ کوئی کسی نہ کسی الزام کے تحت چل رہا ہے۔ کرپشن کو الگ کر کے سوچو۔ موجودہ صورتحال سے یکسر ہٹ کر۔ تو آپ۔ ہم سمیت کوئی بھی مبرا نہیں۔ پاک صاف نہیں، عجیب اصول ہے، ہم سب ’’پارلیمان،، کا خود ساختہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ اپنے لئے الگ، دوسروں کے لئے زیادہ کڑا قانون خود مانتے نہیں۔ دوسروں کو فوراً سے پہلے کڑے شکنجہ میں کسنے کی آرزو رکھتے ہیں۔
ہم میں اور لیڈرز میں فرق ہے۔ معمولی نہیں۔ بہت بڑا فرق ہے وہ امانتوں کے رکھوالے ہیں۔ ووٹ لینے جاتے ہیں تو ایک طے شدہ تحریری منشور لے کر وعدوں کی چھتری تانے ہوئے حق نمائندگی ملنے کے بعد جو بری تصویر بنتی ہے وہ چار سال پرانی نہیں ہمارے ملک کے قیام جتنی طویل پس منظر رکھتی ہے۔ وٹرز کو بس ’’اے۔ ٹی۔ ایم‘‘ مشین کے علاوہ اہمیت۔ وقعت نہیں دی جاتی۔ کوئی کتنے ہی آنسو بہا لے۔ جذباتی تقاریر کرے۔ عوامی حقوق سے پہلو تہی عوامی حقوق سے روگردارنی ، ملکی قوانین کی کھلے عام بے حرمتی، کیا سب خلاف ورزیاں چارج شیٹ نہیں۔ وسائل وافر ہونے کے باوجود عوامی مسائل، مصائب میں کوئی کمی کرنے کا سوچا گیا۔ اگر کام کرنے دیا جاتا تو شاید منظر مختلف ہوتا بلکہ عوام کے لئے زیادہ آسودگی کا ماحول ہوتا۔ شروع دن سے تو رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں۔ احتجاج، دھرنے سانس لینے دیتے تو کام پر توجہ ہوتی۔ بلاوجہ کے تماشوں، بندشوں کے ساری توانائی، اہلیت ضائع کروا دی۔ یہ تو کوئی عذر نہیں۔ نہایت احمقانہ دلیل ہے اس تصویر کے ساتھ کہ ہر اہم ادارے میں اپنے پسندیدہ بندے بٹھا دئیے۔ حتیٰ کہ ’’اولڈ ہوم‘‘ میں سکونت پذیر کو یہاں ’’بڑے بنک‘‘ کا ڈپٹی لگا دیا۔ کسی نے روکا ، کام نہ کرنے دینے کا الزام انڈین الزام تراشی جیسا ہے۔ جہاں تک رکاوٹوں کی بات ہے ہر تیسرے دن یا ہفتہ بھر ’’غیر ملکی یاترا تو کسی بندش کا شکار نہیں۔ درجن بھر ممالک سے زائد میں ’’پیسے‘‘ جاتے رہے۔ آتے رہے۔ کارخانے لگتے رہے۔ کمپنیاں بنتی رہیں۔ اثاثے بڑھتے رہے۔ صرف ایک پارٹی کے نہیں سبھی کے بڑے۔ یہاں تو سب توانائی جاگتی رہی بلکہ انتہائی حد تک فعال رہی تو الزام تراشیاں ، طعنے بس گلی محلہ کی لڑائی لڑتے ہوئے عورتوں جیسے ہیں۔ مداح تو ہم ’’بی بی مریم‘‘ کے بھی ہیں ہم نے تو کنفرم اگلا وزیراعظم ’’نامی کالم لکھا تھا پر؟؟ پر کیا؟ ختم کہانی نہیں ہوئی۔ ہم تو سن رہے ہیں کہ اس لئے فیصلہ قبول کیا کہ ’’بیٹی‘‘ کو بچا لیا جائے گا۔ سارا کھیل اب ’’نیب‘‘ کے ہاتھوں میں ہے۔ مطلب اپنے ہاتھوں میں خیر سب کہانیاں ہیں۔ ’’بڑی عدالت‘‘ نگران ہے۔ اتنی آسانی سے اب ’’ریورس‘‘ نہیں ہونے والا۔ بس بیانات، جلد بازی، آمادہ فساد عناصر لے ڈوبے۔سن لیں ’’نوازشریف‘‘ نہ صرف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنیں گے بلکہ پانچویں مرتبہ بھی وزیراعظم بنیں گے۔ یہ للکار صرف مخالفین کے لئے نہ تھی بلکہ ہر اس شخص ، گروہ کے لئے تھی جو اس وقت ’’ٹی۔ وی‘‘ پر بیٹھا (کچھ ماہ سے مشہور لیبل‘‘ متوقع وزیراعظم‘‘ کے طور پر اس محترم خاتون‘‘ کا لب و لہجہ ملاحظہ کر رہا تھا جو نہ کسی عوامی ادارے کی ممبر تھی نہ ہی انتظامی، قانونی تنظیم کی رکن صرف ایک استحقاق رکھتی تھی۔ ’’وزیراعظم پاکستان کی بیٹی۔‘‘
تکبر’’اللہ تعالیٰ رحمٰن‘‘ کی چادر ہے۔ یہی سنا۔ پڑھا اور کھربوں مرتبہ توبہ، استغفار کرتے ہوئے۔ ’’اللہ تعالیٰ رحیم‘‘ سے فضل و کرم، سلامتی، عافیت کے خواستگار ہیں استدعا کرتے ہیں کہ بلند و برتر ’’رب غفور الرحیم‘‘ ہے کہ ہمیشہ کے لئے ہم پر اپنی عظیم الشان رحمت کی چادر پھیلا دیں یہ نہیں کہ انہوں نے تکبرانہ انداز اپنایا یا صرف الفاظ کی حد تک دیکھا گیا۔ سب کے باوجود اس امر پر بھی یقین رکھنا چاہئے کہ الفاظ کا چنائو درست ہو۔ اس معاملہ میں بھی ہم دعا کرتے ہیں کہ ہدایت، سلامتی، نیکی کے ساتھ قبول ہو۔ آمین۔ ’’رمضان المبارک‘‘ کی مبارک ساعت ’’27 ویں شب‘‘ متبرک ترین رات کو منصئہ شہود پر آنے والے ملک ’’پاکستان‘‘ کی حفاظت فرمائیں۔ ’’آمین‘‘۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38