کچھ خاندان اور شخصیات مقدر کے سکندر ہوتے ہیں ۔ جیسے کہ محمد نواز شریف ہیں ۔ ان کا جنرل جیلانی کے ذریعے وزیر خزانہ بننا ، جنرل ضیاءالحق کے قریب ہونا ، وزیراعلیٰ پنجاب بننا ، جونیجو ضیاءاختلاف ہونا اور حکومت جانا ، میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے لئے نعمت ہی نعمت ثابت ہو رہا ہے ۔ ان کا وزیراعظم بننا ان کے بھائی شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کا راستہ بنا حالانکہ طے شدہ فارمولے کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی نے وزیراعلیٰ بننا تھا پھر شاہ عبداللہ کا مدد گار بننا ، بل کلنٹن کی تدبیریں ، جیل میں پڑے ہوئے شریف خاندان کو سرور پیلس جدہ لے گئیں ۔ یہ سب دعاﺅں ، صدقات و خیرات مگر مقدر کی سکندری کی بھی شان ہے ۔ پھر آنا ، پھر شہباز شریف کا وزیر اعلیٰ بننا اور محمد نواز شریف کا تیسری بار وزیراعظم بننا بھی مقدر کی سکندری ہی ہے ۔ جنرل راحیل کے عہد میں عمران خان اور طاہر القادری کا ”درد سر“ بننا انکے اقتدار کے خاتمے کی کوششیں اور تدبیریں تھیں ۔ مگر وہ تو نواز شریف اور شہباز شریف بدستور اقتدار میں ہیں اور ان کی کہی ہوئی بات ہی ”حکم“ ہے ۔ عمران خان کو اقتدار کیوں نہیں ملا ؟ کیونکہ وہ ذہنی طور پر یورپ کی جمہوریت میں زندہ ہیں جہاں اقتدار اور روایات ، اخلاقی اصولوں سے تابع ہیں ۔ مگر پاکستان میں اس سے بالکل الٹ ہوتا ہے ۔ اسی لئے عمران جمہوریت کا تصور انکی اپنی پارٹی میں بار بار ناکام ہوا اور اب تک ناکام ہے ۔ جب کہ طاہر القادری مذہبی پاپائیت کا نام ہیں ۔ انکی ذات سے ”ثقافت“ اتنی ہی دور ہے جتنے وہ خود عملی سیاسی اقتدار کامیابیوں سے دور ہیں ۔ انہوں نے اپنے زیر اثر مذہبی خاندانوں کا استحصال کیا ۔ ان کو غلط مقصد کے لئے استعمال کیا اور ان کے خلاف جن کی مالی ، اخلاقی ، سماجی سرپرستی سے وہ اپنا مذہبی وسیع ترین مقام حاصل کر سکے تھے ۔ انکی اخلاقی بیساکھی چونکہ بہت ہی کمزور ہے ۔ لہٰذا وہ بار بار ٹوٹ جاتی ہے ۔ انکے مقابلے میں شریف خاندان کا اخلاقی معاملہ اعلیٰ اور عمدہ ہے کہ انہوں نے ہی طاہر القادری کو سب کچھ دیا ہے اس سے لیا کچھ بھی نہیں ۔ شریف خاندان والے سچ مچ قادری کو مذہبی قائد ، روحانی رہنما سمجھتے تھے مگر اتنی مذہبیت اور روحانیت و علمیت سے ان کی اقتدار کی بھوک جنم لیتی رہی ۔ لہٰذا انہیں کامیابی نہ ملنا تھی نہ ملی ۔ جنرل راحیل شریف بہت سوں کے لئے ”مرکز امید“ تھے ۔ مگر سب کچھ امیدیں جنرل راحیل شریف کے جانے سے ٹوٹ چکی ہیں ۔ جنرل جانے کے باوجود مخالفت ، الزامات سے وہ دو چار ہیں ۔ ڈیوس میں انکو پذیرائی ملنا انکی خوش قسمتی کی بجائے اندرونی الزامات اور دباﺅ کا سبب بن گئی ہے ۔ ابھی سیاستدان ان کو کئی مہینے تک رگڑا لگائیں گے ۔ ”پتلیاں“ راحیل کے خلاف متحرک رہیں گی اور ہیرو بنا ہوا جنرل دفاع کرنے پر بار بار مجبور ہو گا ۔ چونکہ اس نے ”دباﺅ“ کے ذریعے مشرف کو باہر بھجوایا تھا لہٰذا اب ریٹائرڈ ہو کر وہ خود ”دباﺅ“ میں رہے گا ۔ مگر عمران تو طاہر القادری نہیں کہ وہ باہر چلا جائے گا ۔ جو ”خلائ“ قادری کے جانے سے بار بار پیدا ہوا وہ عمران خان پورا کرتا رہا ہے ۔ صدر زرداری کی پی پی پی سے وزیراعظم کو ذرا سا بھی خطرہ نہیں ہے جونہی ان کے ہاتھ کچھ نہ آنے کی صورت انہیں نظر آئے وہ منظر سے قادری کی طرح غائب ہو جاتے ہیں ۔ اب وہ پانامہ کا فیصلہ ہونے تک باہر ہی رہیں گے ۔ بلاول کے ہاتھ میں عملی قیادت موجود نہیں لہٰذا نواز شریف مخالف پی پی پی والے وہ کچھ نہ کر سکیں گے جو ان کے دل میں تھے ۔ ہاں عمران خان کا ایجنڈا چونکہ تھا ہی ”منفی“ یعنی ”سونامی“ یہ اقتدار لینے کا نہیں دوسرے کے اقتدار اور سیاست میں مخالفانہ مدوجزر کا نام ہے ۔ سمندر میں جب مکمل چاند کا مدوجزر ہوتا ہے تو سمندر بے قابو ہو جاتا ہے ۔ بڑے جہاز تک ہچکولے کھاتے ہیں۔ اب یہ سب مدوجزر پارلیمنٹ اور سیاست میں موجود ہے تو پانامہ بھی پریشانی پیدا کر رہا ہے ۔ ذاتی طور پر وزیراعظم کے لئے اور ان کی دولت و اولاد کے حوالے سے بھی یہ مدو جزر شائد اگلے مہینوں اور ہفتوں میں مزید بڑھے گا ۔ خدشہ تھا سپریم کورٹ کے باہر تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) والے لڑیں گے ۔ مگر یہ لڑائی قومی اسمبلی میں ہو گئی ہے۔ خیر قومی اسمبلی میں ایسا ہوتا رہتا ہے خواہ یہ ترک پارلیمنٹ ہو یا ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس میں ہو ۔ ڈپٹی اسپیکر کرسی لگنے سے موت کے منہ میں چلے گئے تھے ۔ مسلم لیگ (ن) کی پوری توانائی اور حکومتی شخصیات صرف عمران خان کو شکست دینے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں تو بار بار سیاست اور جمہوریت میں بدترین اخلاقی انحطاط اور زوال کا منظر سامنے آ رہا ہے ۔ مگر قوت ارادی نواز شریف کو مہمیز کئے ہوئے ہے تو عمران خان کو بھی ۔ مریم نواز شریف متبادل کے طور پر موجود ہیں مگر ہمیں تو بدترین اخلاقی زوال کا پھیلاﺅ مزید ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ معلوم نہیں کیوں سینٹ الیکشن ، اس انحطاط کا ایک مزید شاخسانہ ابھی سے نظر آ رہا ہے محمد نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) اقتدار میں تو رہے گی مگر عمران خان اور پانامہ کی وردسری مزید بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے ۔ کیا ان مخدوش حالات میں بھی مسلم لیگی پھر سے متحدہ قوت نہیں بن سکتے ؟ شائد بالکل بھی نہیں کہ محمد نواز شریف خود ہی مسلم لیگ ہیں ان کا خاندان بھی اب مسلم لیگ ہے۔ کوئی دوسرا یہ نام کیسے دوبارہ حاصل کرسکتا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024