پاکستان ایک پر امن ملک ہے۔ جو اپنی توانائی کو پر امن مقاصد کے حصول کیلئے استعمال لانے کا متمنی ہے لیکن امریکہ اسکے برعکس بھارت کیساتھ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے معاہدے کرکے خطے میں عدم توازن کی صورتحال پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ پاکستان اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہے کہ جو وسائل اسکے پاس ہیں ان کا مثبت استعمال ہی علاقائی اور قومی مفادات کے حق میں ہے۔ تاریخ شاہد ہے اور آنے والا وقت ثابت کردے گا کہ پاکستان اپنے وسائل کو صرف اور صرف اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے استعمال کریگا اور اس سے ہٹ کر کسی مقصد کے حصول کا متمنی نہیں۔ لیکن جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اسکی اسلحہ کی دوڑ نے جنوبی ایشیا میں نہ صرف مسائل کا انبار کھڑا کیا بلکہ جنوبی ایشیا میں علاقائی برتری کی خواہش میں اس نے روس اور امریکہ کیساتھ جوہری معاہدوں کے ذریعے خطے میں امن اور استحکام کو دائو پر لگا دیا ، حال ہی میں اوباما کا دورہ بھارت اور اپنے خطاب میں بھارت کو گلوبل پارٹنر بنانے کی یقین دہانی کروانا اور نیوکلیئر معاہدے کی منظوری دینا خطے میں عدم توزان کو مزید ہَوا دینے کے مترادف ہے۔ نیوکلیئر معاہدے پر بات چیت سے قبل اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ امریکہ اسکی مانیٹرنگ کر یگا۔ لیکن جوہری آلات پر ٹریکنگ ڈیوائیس ہٹانا ایک طرف تو بھارت کو کھلی چھوٹ دی گئی اور دوسری طرف اسکا غلط استعمال خطے کیلئے مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ امریکہ بھارت کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔ جس کی ایک وجہ بھارت کے ساتھ سیاسی معاشی اور تجارتی مفادات ہیں۔ دوسرے یہ کہ باراک اوبامہ کے اقتدار کا آخری سال اس کے سیاسی مستقبل کیلئے اس لئے بھی اہم ہے کہ امریکہ میں تین بلین انڈین رہتے ہیں اور وہ معیشت اور سیاست پر اثر انداز ہیں۔ تاریخ نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ مفادات کی بنیاد پر تعلقات جنم لیتے ہیں۔ اس وقت ہندوستان تکنیکی ،اقتصادی اور سماجی میدان میں بھی دیگر ممالک سے بہت آگے ہے۔ ہندوستان کی آبادی کل آبادی کا 77فیصد ہے اور کل رقبے کا 70 فیصد بھی ہندوستان کی ملکیت ہے۔ اسکے پاس علاقے کی تقریباً سو فیصد معدنیات ہیں جبکہ جی این پی میں اسکا بارہواں نمبر ہے۔ علاوہ ازیں اسکے پاس وسع تر فوجی قوت اور قدرتی وسائل موجود ہیں۔ اسکے پاس جدید ترین جنگی اسلحہ ہے جو کہ خطے کے دیر ممالک کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ بھارتی راہنمائوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ خطے کا سب سے بڑی قوت ہیں۔ جہاں تک بھارت کی علاقائی برتری کے متعلق امریکی رد عمل ہے۔ بھارت کی طرف سے مختلف مواقع پر اسکی کوششوں کی امریکہ نے کبھی مخالفت نہیں کی مسئلہ کشمیر سے لے کر مالدیپ ایکشن تک بھارت نے جوبھی مذموم کوششیں کی ہیں امریکہ کی طرف سے بھارت کے نقطہ نظرکو تائید ہی ملی ہے۔ بھارت روسی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے۔ جو اسے جدید اسلحہ ٹیکنالوجی آسان شرائط پر فراہم کرتا ہے جس سے بھارت کو اپنی علاقائی برتری کی پالیسیوں پر عمل کرنے میں آسانی ہوتی ہے کیونکہ جس قدر بھارت کے پاس مضبوط انڈسٹری اور دفاعی قوت ہوگی وہ اسی قدر اس خطے کے ممالک کیلئے خطرہ بنے گا۔ بھارت میں درجنوں لیباٹریوں میں ہزاروں سائنسدان جدید ترین ہتھیار بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ اسکے پاس سزا دینے، اثر ڈالنے اور مجبور کرنے کی بہت سی صلاحیتیں موجود ہیں۔ بھارت نے اپنا "Missile Based Defence System" شروع کیا ہے جسکا مقصد قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن اسکی آڑ میں بھارت اس "Hegemony" کیلئے ہموار کر رہا ہے۔ جسکا مقصد بالادستی کی خواہش کی تکمیل ہے۔ بلاشبہ اوباما کا دورہ بھارت اور نیوکلیئر معاہدہ اسکے منصوبے کی تکمیل کی طرف ایک ا ور قدم ہو سکتا ہے۔ موجود ہ صورتحال میں اسکا دفاعی میدان میں بڑھتا ہوا رجحان جنوبی ایشیا کی ان کمزور ریاستوں کیلئے کس حد تک نقصان دہ ہو سکتا ہے جن کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ پھر ان ریاستوں کا اندرونی ڈھانچہ صحیح نہیں۔ جنوبی ایشیا کی تمام ریاستیں پاکستان سمیت بھارت کو خطرہ سمجھتی ہیں بھوٹان کے علاوہ دیگر ریاستوں نے دوسری طاقتوں سے معاہدات کر رکھے ہیں۔ یا امداد حاصل کرتے ہیں کیونکہ بھارت کا دفاعی نظام ملکی کی بجائے علاقائی ہے۔ اور پاکستان کے علاوہ تمام ریاستیں بھارتی دفاعی نظام کا حصہ ہیں یا اسکے تحت ہیں۔ چنانچہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک نفسیاتی طور پر بھارت سے خوفزدہ ہیں اور بھارت بھی اپنی پالیسی اور پراپیگنڈے کے ذریعہ انہیں خوفزدہ کرتا رہتا ہے۔ اس ضمن میں صدر اوبامہ کو بھارت کو گلوبل پارٹنر قرار دینا بھارت کے مقاصد کو اشیرباد دینے کے مترادف ہے امریکہ کی خارجہ پالیسی میں نشیب و فراز کا عنصر غالب ہے۔ آرمی چیف راحیل شریف کا دورہ چین اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان کے پاس ریجنل آپشن موجود ہے۔ امریکہ نہ صرف روس کا گھیرائو چاہتا ہے۔ بلکہ چین کی معاشی سبقت کا بھی خاتمہ چاہتا ہے۔ جبکہ چین کو بھی اس مقصد کیلئے حلیف کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال میں نہ صرف پاکستان کو نئے افق تلاش کرنے ہونگے بلکہ ایک مستحکم ملک کے طور پر اپنی اہمیت کو اقوام عالم میں اجاگر کرنا ہوگا۔ ہم امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کر کے یہ ثابت کر دیں کہ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردی کیخلاف سیسہ پلائی دیوار ہیں۔ جسکا عزم آرمی چیف نے دورہ چین کے دور ان کیا کہ وہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پر عزم ہیں۔ باراک اوباما نے جس گلوبل پاور کا ذکر کیا ہے۔ ان سے مراد وہ طاقت کی حکمرانی ہے جس کا خواہشمند بھارت ہے اور اگلے چند سالوں تک امریکہ چین، روس اور بھارت کے طاقتور ملک کے طور پر ابھرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کو آئندہ آنیوالے سالوں میں نہ صرف خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنا ہو گی بلکہ اس معاشی، سیاسی نظام میں بہتری کی ضرورت ہے جس کے تحت ہم خود کو منوا سکیں۔ کیونکہ اسلام کا بھی یہی درس ہے کہ یہودو نصاریٰ کو دوست نہ بنائو یہ تمہارے دوست نہیں یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ مسلمان اپنے قلبی رفیق صرف مسلمانوں کو ہی بنائیں۔ یہ رہنما اصول اس منزل مقصود کی طرف واضح اشارہ ہے۔ جس پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف دشمنوں کی سازشوں سے بچا جاسکتا ہے۔ بلکہ اپنے لئے منزل کا تعین بھی کیا جاسکتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38