امریکہ2001 میں نائن الیون کا بدلہ اس افغان قوم سے لینے کیلئے جو نیوپارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارتوں سے طیارے ٹکرانے میں ملوث نہیں تھے۔ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو اس وقت سے لیکر اب تک امریکہ ایک کھرب ڈالر سے زیادہ رقم افغانستان میں جنگ اور افغان عوام کی ترقی کے نام پر خرچ کر چکا ہے۔ اتنی خطیر رقم سے ساڑھے تین کروڑ کی آبادی پر مشتمل افغانستان کو امریکہ کی دولت مند ترین ریاست کے برابر نہیں بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ترقی یافتہ بنایا جا سکتا تھا جہاں کُچھ گھروں پر مشتمل گاؤں جدید عمارتوں‘ کشادہ سڑکوں اور ائرکنڈیشن کاروباری مراکز میں تبدیل ہوجاتے‘ شہروں میں جگہ جگہ پارک و آبشار خوابناک منظر پیش کرتیں۔ تعلیمی اداروں‘ صحت کے جدید آلات و ادویات سے آراستہ ہسپتالوں کا جال بچھا ہوتا ہر افغان خاندان کے پاس لشکارے مارتی کار ہوتی۔ ملک کے تمام شہر قصبات ریلوے نظام کے ساتھ منسلک کردیئے جاتے۔ دنیا سیر و تفریح کیلئے دبئی یا سوئٹرز لینڈ جانے کی بجائے افغانستان کا رخ کرتی تو پھر اتنی خطیر رقم کہاں گئی کہ افغان نوجوان بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہو کر افیون کے کھیتوں میںمزدوری ‘ منشیات کا دھندہ کرنے والے قبائلی’’وارلارڈ‘‘ کی ذاتی ملیشیاء میں بندوق برداری کرنے یا پھر برسراقتدار بااثر افغانوں کے لئے سیکورٹی گارڈز کے فرائض انجام دینے پر مجبور ہیں یہاں بھی کام نہ بنے تو ماہانہ تنخواہ پر افغان طالبان میں شامل ہو کر امریکی فوج اور حکومت کیخلاف مزاحمتی جنگ کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ امریکہ نے ابتدائی حملوں کے بعد جب افغانستان پر قبضہ مکمل کرکے وہاں اپنے نمائندے حامد کرزئی کو مسند اقتدار پر بٹھانے کے بعد بلاوجہ افغانوں کا قتل عام کرنے اور شمالی اتحاد کو اپنی انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے پر لگانے کی بجائے افغان عوام کی بہبود اور ان کیلئے ترقی کے منصوبے جلداز جلد مکمل کرکے افغان عوام کی سہولیات بہم پہنچانے کا اہتمام کیا ہوتا تو آج افغانستان کا منظر نامہ مختلف ہوتا۔ مزاحمت کرنیوالے افغان طالبان کیلئے مقامی لوگوں میںحمایت آہستہ آہستہ دم توڑتی چلی جاتی وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کو سامنے دیکھتے ہوئے خود ہی مزاحمت کرنیوالے مقامی لوگوںکو اپنے علاقوں سے نکال باہر کرتے۔ افغان طالبان وہ اپنے ہی ملک میں اپنے لوگوں کیلئے ناقابل قبول ہو کر تنہا ہو جاتے جسکے بعد امریکہ کیلئے انہیں بندوق پھینک کر تعمیر و ترقی کا حصہ بننے اور جمہوری عمل کے ذریعے خود کو حکومت کیلئے اہل ثابت کرنے کی طرف راغب کرنا آسان اور انکار کی صورت میں ان کا صفایا کرنا امریکی فوج کیلئے سیل ہو جاتا وہ پناہ کیلئے پاکستان کے قبائلی علاقوں کا رخ کرتے تو امریکہ سفارتی سطح پر پاکستان پر دباؤ ڈالنے کیلئے وہی لب و لہجہ اختیار کرتا جو امریکہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ دنوں اپنے خطاب میں کیا تو پھر نہ تو چین فوری طور پر امریکہ کو اپنے ’’ جامے‘‘ میں رہنے کی تلقین اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستانی کردار کو تسلیم کئے جانے کی بات کرتا نہ ہی روس‘ چین کی طرح پاکستان کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا۔
امریکہ نے اپنے جدید اسلحہ اوردنیا بھر کی فوج کو ساتھ ملا کر افغانستان پر قبضہ تو کر لیا اور اس قبضے سے پہلے ‘ اپنے بی 52 بمبار طیاروں سے گرائے گئے تباہ کن بارود اور ڈیزی کٹر بموں کے ذریعے پورے افغانستان کا ’’تورا بورا‘‘ بنانے کے باوجود جنگ کے بعد افغانستان میں تعمیر نو اور وہاں سے اپنے انخلا پر غور کرنا گوارا نہیں کیا نہ ہی مضبوط قبائلی نظام کے عادی افغان عوام کیلئے کوئی ایسا ٹھوس سیاسی ڈھانچہ تشکیل دینے کی کوشش کی گئی جو جمہوریت کے قریب اور افغانیوں کیلئے بھی قابل قبول ہو۔ امریکیوں نے شمالی اتحاد کو ساتھ ملانے کے علاوہ افغانستان پر اپنے کنٹرول کا تاثر دینے کیلئے ’’وارلارڈز‘‘ پر انحصار کیا ور انکے مرغوب کاروبار افیون کی کاشت اور منشیات جیسے مکروہ دھندے کی سرپرستی شروع کردی جسکے نتیجے میں بدعنوانی و کرپشن پر مبنی ایک ایک ایسا فسطائی نظام وجود میں آیا جس میں عام افغان کے مسائل کا کوئی حل نہیں تھا سابق افغان صدر حامد کرزائی اور اسکے بھائی کے ساتھ منشیات کی سمگلنگ کے حوالے سے منظر عام پر آنیوالے ہوش ربا قصے مغربی صحافیوں کے ذریعے وہاں کے اخبارات میں شائع ہونے سے شروع ہوئے تو اس میں ان امریکی جرنیلوں کو بھی ملوث قرار دیا جانے لگا جو افغانستان میں امن کی پالیسی دینے اور اس پر عملدرآمد کیلئے وہاں تعینات رہے۔ مایوس کن انہی حالات میں عراق و شام کے بعد افغانستان میں داعش کے قدم جمانے اور انکی طرف سے طالبان کو چیلنج کرنے کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو روس نے بھی افغانستان کے مسئلے پر چپ کا روزہ توڑتے ہوئے داعش کو اپنی سلامتی کیلئے خطرہ اور اسکی افغانستان میں موجودگی کو سی آئی اے کی کارستانی قرار دیتے ہوئے طالبان سے رابطے استوار کر لئے‘ اسکی پاداش میں امریکیوں نے ایران میں اپنے خاندان سمیت قیام پذیر ملا منصور کو اس وقت ڈرون حملے کا نشانہ بنایا جب وہ امن مذاکرات میں پیش رفت کیلئے ایران سے پاکستانی حدود میں داخل ہوا۔ ان اطلاعات کے بعد کہ بھارت بھی داعش کو افغان علاقوں میں قدم جمانے میں مدد فراہم کرنیوالوں میں شامل ہے روس نے بھارت سے دوری اختیار کرتے ہوئے افغان مسئلے کے حل کیلئے پاکستانی مؤقف کی حمایت شروع کر دی اور کھل کر افغان طالبان کی کو ہر طرح کی امداد فراہم کرنے کا اعلان کر دیا۔
لیکن اس ساری صور تحال میں ان افغان نوجوانوں کی بے روزگاری کے خاتمہ کا کوئی حل نہیں تھا اور نہ ہی اسکے آثار دکھائی دے رہا تھا جو طویل جنگ میں بری طرح متاثر ہوئے انکی دادرسی کیلئے داعش نے قدم آگے بڑھایا اور 500 ڈالر فی افغان نوجوان داعش میں شامل ہو کر ان کیلئے لڑنے کی تنخواہ کا اعلان کر دیا جسکے بعد صرف افغان صوبوں فریاب اور جوذ جان کے پسماندہ علاقوں سے گزشتہ چھ ماہ کے عرصہ میں 300 سے زیادہ نوجوانوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی۔ یاد رہے دنیا میں لوہے کے اعلیٰ ترین ذخائر افغانستان کے صوبہ بامیان اور اس سے ملحقہ انہیں افغان صوبوں میں پائے جاتے ہیں جنہیں نکالنے کیلئے 2012ء میں مجموعی حقوق بھارت کے بہت بڑے صنعت کار سجن جندل کے ’’جے ایس ڈبلیو سٹیل‘‘ کے پاس ہیں جو جندل خاندان ہی کے جے ایس ڈبلیو گروپ کا ذیلی حصہ ہے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ ماسکو اور بیجنگ داعش کی اپنی سرحدوں کے قریب موجودگی کو اپنی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے افغانستان میں قیام امن کیلئے حقیقی معنوں میں سرگرم ہیں اور پاکستان کو ساتھ ملا کر اس کا کوئی ایسا قابل عمل حل چاہتے ہیں جس کے بعد افغانستان میں جاری دہشت گردی اور ممکنہ خانہ جنگی کو روکنے میں مدد ملے لیکن بھارت اور امریکہ نے مل کر گزشتہ 2 برسوں میں پاکستان‘ چین اور روس کی کوششوں کو بری طرح ناکامی سے دوچار کیا اور اب امریکی صدر ٹرمپ بھارت کو افغانستان میں مزید کردار کی دعوت دے رہا ہے جس پر پاکستانی سرحد کے قریب تورا بورا کے علاقے میں داعش کو مضبوط پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت اپریل 2017ء میں تورا بورا ہی کے علاقے میں گرائے گئے بموں کی ماں نامی بم کی زد میں آ کر مارے گئے درجنوں بھارتی ہیں جن میں 4 بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ملازم شامل تھے۔ جبکہ داعش کے 36 دہشت گرد بھی اس حملے میں مارے جانے والوں میں شامل تھے۔ امریکہ افغانستان میں اپنے مستقل قیام کے لئے وہاں ایک نئی جنگ کی تیاری کر رہا ہے جس میں اس کے اتحادی کا کردار نیٹو کی بجائے بھارتی فوج ادا کرے گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38