بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت پاکستان کے ساتھ مختصر جنگ کی تیاریاں کررہا ہے ۔ بھارت کا خیال ہے کہ پاکستان گزشتہ 14 چودہ سال سے حالت جنگ میں ہے ۔ دفاعی اور اقتصادی اعتبار سے جنگ کے قابل نہیں رہا ۔ہے اس سے قطع نظر کہ ہم بھارت کی ان باتوں کوماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن جنگ صرف الفاظ اور جھوٹے دعووںسے نہیں لڑی جاتی اس مقصد کے لیے افرادی قوت ¾ وسائل اور معاشی استحکا م کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی متحرک کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ایک لمحے کے لیے ان بھارتی دھمکیوںکے تناظر میں ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کربھی دیکھنا چاہیے کہ ہم بحیثیت قوم کس حد تک جنگ کے لیے تیار ہیں۔ سب سے پہلے ہم اپنی فوجی تیاریوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ۔ پاکستان میں سول انتظامی ڈھانچہ کارکردگی کے اعتبار سے زمین بوس ہوچکا ہے ۔انتظامی ادارے اور پولیس کی کارکردگی صفر سے بھی نیچے جاچکی ہے ۔کہیں دہشت گردی کی وارد ات ہو ¾ یا سیلاب کی تباہ کاریاں ¾ زلزلہ آئے یا طوفانی بارشیں ہمیں ہر مشکل گھڑی میں فوج کو ہی بلانا پڑتا ہے ۔ گویا فوج کاایک بڑا حصہ ہر وقت سول معاملات میں ہی مصروف دکھائی دیتا ہے ۔ وزیرستان سمیت تمام قبائلی ایجنسیوں میں ضرب عضب اور دیگر آپریشن میں پاک فوج کے ایک لاکھ سے زائد افسر اور جوان مصروف جنگ ہیں ۔آئی ایس پی آر کے مطابق9/11 کے بعد ساڑھے چار ہزار فوجی افسراور جوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں جبکہ زخمیوںکی تعداد بھی ہزاروںمیں بتائی جاتی ہے ۔اگر امریکی فوجی افغانستان میں ہر لمحے موت کے خوف میںمبتلا ہوکر نفسیاتی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں تو پاکستانی فوجی بھی گوشت پوشت کے انسان ہیں کیا وہ ذہنی اور جسمانی طور پر تھک نہیں سکتے ¾ کیا بدترین حالات میں لڑتے ہوئے ان کا مورال متاثر نہیں ہوسکتا۔ پھر فوج کاایک بڑا حصہ اقتصادی راہداری سے وابستہ منصوبوں پر کام کرنے والے چینی ماہرین کی حفاظت پر مامور ہے ۔ہماری تمام فوجی چھاﺅنیاں دہشت گردوں کی کارروائیوں کی زد میں ہیں آپ کسی بھی شہر کے کینٹ ایریا میں چلے جائیں تو آٹھ سے دس ہزار فوجی جوان کینٹ ایریا کی حفاظت پر مامور دکھائی دیتے ہیں جبکہ وی وی آئی پی اور فوجی افسروں کی حفاظت اور خدمت پر مامور جوانوںکی تعدادکااندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ افغان سرحد پر بھی ایک لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی فوجی تعینات ہیں جن کے بارے میں آئے دن خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں نے حملہ کیا اور اس حملے میں اتنے جوان شہید ہوگئے ۔کراچی شہر میں بڑھتی قتل و غارت گری ¾ بھتہ خوری اور دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج اور رینجر مصروف عمل ہے ۔پولیس کی کارکردگی وہاں بھی صفر ہے ۔17 سو میل طویل بھارتی سرحد پر بھی فوج ہی تعینات ہے ۔ چار سو میل لمبی کنٹرول لائن جو سیالکوٹ سے شروع ہوکر سیاچن تک جاتی ہے وہاں بھی بھارتی سورماﺅںکے سامنے پاک فوج کے جوان سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے کھڑے ہیں ۔اب باقی فوج کتنی ہمارے پاس بچتی ہے جو بھارت سے جنگ کے لیے تیار ہے میں لاعلم ہوں۔ کہنے کامقصد یہ ہے کہ پانچ سے چھ لاکھ فوج کو جب اندرون اور بیرون ملک دفاع کرناپڑے گا تو اس کی کامیابی کی شرح کیا رہ جاتی ہے جبکہ یہی فوج گزشتہ چودہ سال سے حالت جنگ میں بھی ہو اور اقتصادی حالت بھی اس قدر خراب ہو کہ ہر چھوٹے بڑے پراجیکٹ کے لیے ہم دنیا بھر میں کشکول لیے پھرتے ہوں ۔ ہم باتوںکے ہوائی قلعے لاکھ تعمیر تو کرسکتے ہیں لیکن حقائق کچھ اور کہتے ہیں ۔اب ہم اپنے سیاسی قائدین کی جانب آتے ہیں جو بھارتی جنگی دھمکیوں کے باوجود ابھی تک سنجیدگی اختیار نہیں کرسکے ۔ نواز شریف 93 سے زائد وزیر اور مشیر بنا کر قومی خزانے پر بوجھ ثابت ہورہے ہیں۔ وہ بادشاہوں جیسی زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔عمران خان ایک ضدی سیاست دان کا روپ دھار کر ہر بال پر وکٹ حاصل کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے بھتہ خوروں پر ضد پڑی تو وہ بھی بلیک میلنگ پر اتر آئے ہیں ۔قاسم ضیا اور ڈاکٹر عاصم جیسے کرپٹ لوگوں کی گرفتاری پر پیپلز پارٹی بھی سراپا احتجاج ہے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں۔ ان حالات میں کیا ہم بھارت کامیدان جنگ میں مقابلہ کرنے کی حقیقی معنوں میں صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب جذبات سے نہیں عقل و دانش اور حقائق کومدنظر رکھ کر ہی دیاجاسکتا ہے ۔ امن ہو یا زمانہ جنگ ¾ میڈیا کاکردار ہمیشہ موثر اور اہم رہا ہے اگر پاکستانی چینلز کی تعداد 80 ہے تو ان میں سے75 ٹی وی چینلز بھارتی فلمیں ¾ ڈرامے اور کلچر کوپرموٹ کرنے میں رات دن ایک کیے ہوئے ہیں ۔ باقی رہ گئی پاکستانی قوم وہ انڈین ٹی وی فلموں اور کلچر کی اس قدر دلدادہ ہوچکی ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے بغیر تو زندہ رہ سکتی ہے لیکن انڈین ٹی وی چینلز کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ کبھی وہ وقت بھی تھا کہ فوجی چھاﺅنیوں اور پولیس لائنوںمیں انڈین ٹی وی دیکھنا ممنوع تھالیکن آج دونوں جگہوںپر انڈین چینلز دیکھے اور دکھائے جاتے ہیں ۔ ذراسوچیئے کہ ان حالات میں کیا ہم اپنے وطن عزیز کا کامیابی سے دفاع کرسکتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024