آج کل بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی غلطی کا اعتراف کر لے۔بلکہ بہت د فعہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کافی سمجھ بوجھ والے لوگ اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ اپنے غلط فیصلوں پر صرف اپنی انا کی تسکین کی خاطر ڈٹے رہتے ہیں۔ چاہے اپنے ان غلط فیصلوں کی انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بعد میں کتنی بڑی سزا ہی کیوں نہ بھگتنی پڑ جائے۔ اپنے غلط کام کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے لیے ایسے ایسے دلائل دیے جاتے ہیں…کہ خدا کی پناہ۔ کسی بات ، کسی غلطی اور کسی غلط واقعے کو اس کی تمام تر حقیقتوں کے ساتھ کھلے دل سے مان لینا ہی اعتراف جرم کہلاتا ہے جب بندہ اللہ پاک سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے تو وہ رب العالمین کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگتا ہے اور اسی چیز کو کامیابی کہا گیا ہے۔پاکستان کو آزاد ہوئے قریباً سات عشرے ہونے کو ہیں مگر ہم اپنے بعد میں اور اپنے ساتھ ہی آزاد ہو نے والے دوسرے بہت سے چھوٹے بڑے ملکوں سے بہت پیچھے ہیں۔ اگر ہم نے کسی شعبے میں ترقی کی ہے تو وہ شعبہ ہمارا ڈیفنس سسٹم ہے اس وقت ہم پوری دنیا میں بہترین صلاحیتوں کی حامل فوج رکھتے ہیں جس کی تربیت کی ساری دنیا معترف ہے۔ ہم نے ایٹمی صلاحیتیں حاصل کیں ہیں یہ بھی ہماری بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ مگر اس کے علاوہ ہم اس وقت پوری اقوام عالم سے بہت پیچھے ہیں۔ ہمارا نظام تعلیم ہمارا نظام عدل اور ہمارا طرز حکومت کسی بھی لحاظ سے قابل فخر نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کو ویسے ہی کم وقت ملا ہے۔ مگر جو وقت بھی ملا ہمارے سیاست دانوں نے ملک کی بہتری کے کام کرنے کی بجائے اپنے ذاتی کاروبار کی بہتری کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ جب بھی اس ملک میں فوج نے حکومتوں کا تختہ الٹا ہے تو سب سے بڑا الزام ہمارے فوجی آمروں نے سیاست دانوں کی کرپشن پر لگایا ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ آمریت بھی بری تھی مگر ہماری جمہوری حکومتیں آمریت سے بھی بری تھیں۔ عوام کے حقوق سلب کرنے میں جمہوری حکومتیں آمریت سے بھی دو ہاتھ آگے رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر سال سیلاب آتا ہے ہر سال بہت نقصان ہوتا ہے اس کے بعد یہ قیمتی پانی سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ستر سال ہو گئے آزاد ہوئے ہم نے آج تک کوئی بھی ایسی منصوبہ بندی نہیں کی کہ مستقبل میں ہونے والی تباہی سے بچا بھی جائے اور یہ قیمتی پانی ہمارے ملک کی زمینوں کو سیراب بھی کرتا رہے۔ صرف دو ماہ ساون کی بارشیں برستی ہیں اس وقت ہمارا کسان اپنے گھر بار اپنے مویشی اپنے بال بچے بچانے کی فکر میں رہتا ہے۔ اور اس کے بعد اگلے دس مہینے کسان اپنے جانوروں اور زمینوں کے لیے پانی کی کمی شکار رہتا ہے ۔ہم صرف ایک کالا باغ ڈیم بنانے کے لیے کتنے سالوں سے بحثوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ایک منصوبہ بنایا جاتا ہے اس پر اس قوم کا بیشمار پیسہ خرچ کر دیا جاتا ہے مگر وہ ڈیم ہے کہ سیاسی لوگوں کی سیاست کی نظر ہو جاتا ہے۔ قوموں کی بہتری کے لیے منصوبے بنا نے سے پہلے ان پر غور وغوض کر لینا چاہیے کہ اس پر جو لاگت آرہی ہے اس کا قوم کو کتنا فائدہ کتنی دیر تک ملتا رہے گا۔ مگر ہمارے یہاں جمہوریت اور آمریت میں لسانی اور گروہی تعصبات کو ایسے ہوا دی جاتی رہی ہے کہ کالا باغ ڈیم جیسا بڑا منصوبہ علاقائی مفادات کی سولی چڑھ گیا۔ اور سزا پورا ملک بھگت رہا ہے ۔ انصاف اور قانون صرف عام لوگوں کے لیے ہی رہ گیا ۔ جتنے بڑے جرم کر لو۔ پیسے اکٹھے کر لو۔ تعلقات بنا لو اتنا ہی لوگ ہمارے معاشرے میں معتبر بنتے جاتے ہیں۔ جعلی ناموں پر اربوں کھربوں کے قرضے بینکوں سے دلوائے جاتے ہیں۔ قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر جعلی فیکٹریاں دکھا کر بینکوں سے بڑ ے بڑے قرضے لیے جاتے ہیں اور پھر تعلقات کے ذریعے معاف کرا لیے جاتے رہے ہیں۔ اس ملک کو ناانصافی اور کرپشن نے ہی تباہ کرنا شروع کیا ہے کرپٹ لوگ آہستہ آہستہ جانتے بوجھتے اپنی آنکھوں پر ہوس کا پردہ ڈالے جرائم پیشہ اور دہشت گردوں کے ہاتھوں کھلونا بنتے چلے گئے۔ہمارا ملک پچھلے کئی سالوں سے آگ و خون کا شکار ہے۔ بیرونی طاقتیں بھی اس ملک کے امن کی دشمن ہیں۔ اپنی مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے ہمارے ہی لوگو ں کو چننا شروع کر دیا ۔زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کی چاہ میں ہمارے بڑے بڑے نامور لوگ دشمنوں کے آلہ کار بنتے چلے گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ کراچی شہر میں جب سے رینجرز نے آپریشن شروع کیا ہوا ہے۔ آئے روز ہمارے سیاست دان اور بڑے بڑے نام دہشت گردوں کے حمایتی اور مدد گاروں کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ اپنے دورہ کراچی میں آرمی چیف نے واضح کیا ہے کہ دہشت گردی روکنے کے لیے دہشت گردوں اور کرپشن کے گھنائونے گٹھ جوڑ کو توڑنا بہت ضروری ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم معافی مانگنی ہے کہ جو ملک ہمارے اسلاف نے بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔ ہم اس کی قدر نہ کر سکے۔جب تک احساس ندامت نہ ہو گا اپنی غلطیوں کا برسرعام اعترف نہیں کیا جاتا ہے۔ ہم نے بہت غلطیاں کر لیں اب ندامت کے آنسو بہا کر اپنے رب سے معافی مانگتے ہوئے اور پچھلی خطائوں پر نادم رہتے ہوئے آگے کا سفر شروع کرنا ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024