بھارت کی جانب سے مشیر خارجہ سطح پر ہونے والے مذاکرات کی منسوخی مودی حکومت کے لئے دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا باعث اس لئے بھی بن گئی ہے کہ مودی سرکار نے مذاکرات میں ون ایجنڈا کی شرط لگا کر یہ ثابت کر دیا کہ بھارت کشمیریوں کو حق خودمختاری دینے کے حق میں نہ پہلے تھا اور نہ ہی وہ اب آزادی کشمیر کے بارے میں ایسی نوعیت کے مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ مودی سرکار کو یہ بخوبی علم تھا کہ کشمیریوں کی شمولیت سے پاک بھارت مذاکرات میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور یوں بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کی دیرینہ خواہش ہمیشہ کے لئے دم توڑ جائے گی۔
نریندر مودی کے وزیراعظم منتخب ہونے سے قبل ہی مغربی دنیا میں یہ تاثر عام تھا کہ مودی کی کشمیر اور پاکستان کے بارے میں پالیسی کسی آنے والے طوفان کا پیشہ خیمہ ثابت ہو سکتی ہے جس سے خطے میں امن واستحکام کا متاثر ہونا یقینی ہو گا۔ چنانچہ اگلے روز پاک بھارت امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کی ”پروڈکشن“ درست ثابت ہو گئی۔ مذاکرات کی منسوخی پر امریکہ نے ہی نہیں مغربی ممالک نے بھی سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور مذاکرات کی منسوخی پر ہندوستان ٹائمز نے بھی بغیر لگی لپٹی یہ لکھا کہ مودی سرکار کی پاکستان اور کشمیر کے بارے میں پالیسی سے بھارت کو اندرونی طور پر نقصان ہی نہیں ہوا عالمی برادری میں بھی اس کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان سے کئے جانے والے مذاکرات کا واحد ایجنڈا اگر دہشت گردی ایکسپورٹ تک ہی محدود رکھنا تھا تو اس بارے میں مودی سرکار کو ”اوفا“ کانفرنس سے بہت پہلے سوچ لینا چاہئے تھا مذاکرات کا سب سے اہم اور بڑا ایشو اگر دہشت گردی ہی تھا تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کرنا پھر کیوں ضروری تھا؟ اخبار نے لکھا کہ محض دہشت گردی پر مذاکرات کرنا اور حریت رہنماﺅں کے خلاف زہر اگلنے سے بھارت کی عالمی برادری میں پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ دہشت گردی ایک ایسا ایشو تھا جس پر کشمیر اور کشمیر میں پھیلی بے چینی پر ہی مذاکرات ہونے چاہیں تھے کہ دونوں ممالک کے عوام کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ سیکرٹری خارجہ سطح پر ہونے والے ان مذاکرات کے نتائج بہتر نکلیں گے مگر! مذاکرات کی منسوخی کے ساتھ ہی پاک بھارت دو طرفہ تعلقات پر سردی مہری کا شکار ہو گئے۔ ”ہندوستان ٹائمز“ نے مزید لکھا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی بعض پالیسیاں خود بھارت کے لئے خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔ دہشت گردی بلاشبہ خطے کا سب سے اہم ترین مسئلہ ہے مگر کل کو بھارتی سرزمین پر اگر دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے تو ظاہر ہے بھارت اس کی شکایت امریکی یا عالمی برادری سے ضرور کرے گا مگر مودی سرکاری شاید یہ بھول رہی ہے کہ ایسے حالات میں امریکہ یا دیگر عالمی قوتیں یہ جواب دینے میں کہ اگست میں سیکرٹری خارجہ سطح پر ہونے والے مذاکرات کی منسوخی میں تو آپ شامل تھے حق بجانب ہوں گی جب کہ دہشت گردی ایسے حساس نوعیت کے موضوع پر نئے ایجنڈے کے تحت بات چیت ہو گی۔ دوسری جانب امریکہ نے بھی پاک بھارت مذاکرات کی منسوخی پر افسوس کا اظہار کیا ہے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ”جان کیری“ کا کہنا ہے کہ کشمیر میں کشیدگی کے حل کے لئے دونوں ممالک کے رہنماﺅں کے مابین امن مذاکرات ناگزیر ہیں کیونکہ مسئلہ کشمیر کا حل بھارت اور پاکستان نے خود مل کر نکالنا ہے۔ اس لئے مذاکرات جاری رہنے چاہیں۔ انہوں نے کہا چند دنوں بعد جنرل اسمبلی میں اجلاس ہونے جا رہا ہے اس لئے پاکستان اور بھارت کو چاہئے کہ وہ اس اجلاس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بات چیت کو آگے بڑھائیں تاکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے فضا ہموار ہو سکے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے بیان کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ صاف عیاں ہے کہ ”مسئلہ کشمیر“ کا حل امریکہ نے اور نہ ہی برطانیہ نے نکالنا ہے جب کہ اس مسئلے کا حل پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہی نکالنا پڑے گا۔ اس میں قطعی شک و شبہ نہیں کہ بھارت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بین الاقوامی دہشت گردی سے منسلک کرنے کے لئے اپنے تمام تر ذرائع بروئے کار لا رہا ہے تاکہ تحریک آزادی کو دبایا جا سکے مگر بھارت کا یہ خواب شاید کبھی بھی پورا نہ ہو سکے۔ بہت کم کشمیری یہ جانتے ہیں کہ ”تنازعہ کشمیر“ کی وہ سکیورٹی کونسل قرارداد جس کی 5 جنوری 1949 میں توثیق کی گئی اس کا متن یہ تھا۔
(ترجمہ).... جموں کشمیر کے الحاق کا یہ مسئلہ کہ یہ بھارت یا پاکستان کا حصہ ہے اس کا فیصلہ جمہوری، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے دہی سے کیا جائے گا)
اس طرح 27 اکتوبر 1947 میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان کو ایک ٹیلی گرام بھجوایا جس کا متن یوں تھا۔
(ترجمہ)کسی بھی علاقے یا ریاست کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا اور ہم اس فیصلے کے پابند ہیں....؟“
یہ دونوں تاریخی حوالے ریکارڈ پر موجود ہونے کے باوجود بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر پر غاصبانہ قبضے کی خواہش سمجھ سے بالاتر ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ یا اقوام متحدہ کشمیری قراردادوں سے آگاہ تو ہے مگر آزادی کشمیر کے لئے شاید یہ ممالک وہ کردار ادا نہ کر سکیں جن کی امید گزشتہ 69 برس سے کشمیری لگائے بیٹھے ہیں؟ پاک بھارت مذاکرات کی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں ہو گی جب تک حریت رہنماﺅں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا کشمیریوں کی شمولیت کے بغیر پاک بھارت مذاکرات بے نتیجہ رہیں گے۔ ”تنازعہ کشمیر“ کوئی ایک دو ہفتے کا مسئلہ نہیں۔ افسوس جن لوگوں نے یہ مسئلہ پیدا کیا قیام پاکستان سے آج تک وہ مصالحتی میدان سے باہر بیٹھے صرف داﺅ پیچ ہی بتا رہے ہیں.... کیا خوب مصالحتی پالیسی ہے....؟