یہ ماہ ستمبرواقعی "سمتگر"ہوتا ہے دنیا تو اسے 9/11کے حوالے سے جانتی ہوگی جب ورلڈ ٹریڈسینٹر کو لگنے والی آگ پوری اسلامی دنیا میں پھیلی اور عمارت کی اینٹوں کے ٹکڑے سارے عالم اسلام پربرسے۔دنیابدل گئی،امریکہ بھی بدل گیا۔مسلم اور غیر مسلم کی تقسیم بڑھ گئی۔رویئے بدل گئے۔"اسلام دشمنی"میدان سیاست میں بکنے والا کامیاب نسخہ بن گیا۔نریندر مودی اور ڈونلڈٹریپ ۔آنگ سان سوچی کے علاوہ حال ہی میں جرمنی کی انگلامرکل بھی اسی نفرت کی سوداگر نکلی آج 25ستمبر ہے۔ اخباراٹھایاتو حقیقت سامنے آئی کہ آخر ہم قحط الرجال کا شکار کیوں ہیں ۔مختلف سن وسال میں آج ہی کے روز ہم سے روشن ستارے ،علم و فضل ۔تحمل وبربادی،جرا¿ت وجگرداری اور سیاست کے روشن مینار ،رخصت ہوگئے۔اخبار کے صفحہ اول پر نواز شریف کی عدالتوںمیں پیشی پہ پیشی کی خبریں پڑھ کر اور تصویر دیکھ کر بڑے لوگوں کی دنیا سے روانگی اور ایک کی آمد کے بارے میں پڑھ کرذہن کسی "بلیک اینڈ وہائٹ"فلموں جیسے زمانے میں چلا گیا۔سید ابوالا علی مودودی1903ءمیں آج کے روز حید ر آباد کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے ۔خدا نے مسلمانوں کی راہنمائی کیلئے چن لیا اور 1941ءمیں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی ۔ہم سفر ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔مگر یہ کارواں کوئی عام سے مسافروں پر مشتمل نہ تھا۔ڈاکٹر اسرار احمداورمولانا امین احسن اسلامی جیسے اپنے وقت کے بڑے بڑے نابغہ روزگار اور علم وفضل کے شہسوار اس قافلے میں شامل تھے ۔مولانا مودودی کوملنے کا اتفاق کبھی نہ ہوسکا۔جب پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور لیاقت بلوچ صاحب کے مقابلے میں یونین کے جنرل سیکرٹری کا انتخاب لڑا تو اسلامی جمیعتہ طلباءکے فاشسٹ کردار ،مخالفین کی بے توقیری اور کئی طلباءکو قتل تک کردینے والے واقعات دیکھ کر سچی بات ہے کہ مولانا کو ملنے کو خواہش ہی ختم ہوگئی ۔وگرنہ دیگر مذہبی سکالرز کے علاوہ ان کالڑیچرپڑھ کردل وذہن میں کئی مسائل کی گتھیاں سلجھتی تھیںانکی سیاسی سوچ سے اگرچہ اختلاف رہا مگر ان کے علمی مقام کی اپنی ایک اہمیت تھی مولانا کی وفات کے بعد جماعت اسلامی کا جو دور شروع ہوا وہ ایک طرح سے ©POST"© مودودی" دور تھا جس میں صرف سیاست کی گئی۔غلط یا صیحح اس سے بحث نہیں۔اور"اقامت دین"کا محکمہ پس نظر میںچلا گیا۔ حال ہی میںلاہور کے حلقہ NAنمبر120کے انتخابات میں جب جماعت نے حصہ لیا تو پتہ چلا کہ اقامت دین کی کوششوں میں ناکامی کے بعداب سیاست میں بھی حاصل ضرب صفر ہے۔جماعت اسلامی کی سیاست اور دینی سرگرمیوں پر ازسرنو جماعت کواب غور کرنا ہوگا۔مجھے تو صرف مولانا کے علمی مقام سے غرض ہے اور اس میں کوئی کلام نہیں کہ اپنے وقت میں وہ عالم اسلام کے بے بدل راہنما تھے۔"تفہیم القران"جیسا شاہکار اللہ نے ان کے مقدر میں لکھ دیا تھا۔جس چشمے سے اب بھی لوگ اپنی علم کی پیاس بجھاتے ہیں۔ آج 26ستمبر کے روز پاکستان کی سیاست کے ایک اہم باب نوابزادہ نصراللہ کی زندگی کا باب بھی ختم ہوگیا۔بظاہر نرم خونرم گفتارمسکراتے چہرے والے نوابزادہ صاحب بنیادی طور پر پارہ صفت آدمی تھے۔پاکستان کے علاوہ جنوبی پنجاب کے مکینوں کو ہمیشہ ان پر فخر رہے گا۔سید عطاءاللہ شاہ بخاری کی جماعت "مجلس احرار اسلام "سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا اور احرار کے جنرل سیکرٹری رہے۔وہ عہدہ جس پر چوہدری افضل حق اور آغا شورش جیسے لوگ بھی رہے ۔پاکستان بن گیاتو مختار مسعود کے بقول "احرار پٹ گئے"اور شاہ جی نے سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔مگر نوابزادہ صاحب توجیسے پیدا ہی سیاست اور"اختلاف"کے لئے ہوئے تھے مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور1951ءمیں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے پھر مسلم لیگ سے اختلاف ہوئے تو حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ میں شامل ہوگئے۔عوامی لیگ سے بھی اختلاف ہوگیا تو اپنی"پاکستان جمہوری پارٹی"بنا لی ۔نوابزادہ پر لکھنا ایک کالم کے کسی جز میں تو ممکن ہی نہیں ۔اس کے لئے تو ہمارے دوست آصف بھلی سی ریاضت اور نوابزادہ سے ان کی محبت اور لگن کی فراوانی درکار ہوتی ہے۔جنہوں نے "جمہوریت سے ملاقات "کے عنوان سے نوابزادہ کی شخصیت پر ایک خاصے کی کتاب لکھی۔نوابزادہ 62ءمیں بھی ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اس کے بعد ایک عرصے تک ایوان میں جانے کا انتظار کرنا پڑا ۔پاکستان میں کوئی ایسا سیاسی اتحاد نہ تھا جس کی بناءنوابزادہ نصراللہ خاں نے نہ ڈالی ہو۔آخری اتحاد پرویز مشرف کے خلاف۔ A.R.Dکے نام سے بنایا جس میں پہلی بار پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ اکٹھے ہوئے۔مگر زندگی بھر انہیں اس اتحاد کے انجام کا افسوس رہاجب کلثوم نواز کی قیادت میں(ن)لیگ انہیں غچہ دے کر نواز شریف کو،پرویز مشرف سے سودے بازی کرکے سعودی عرب لے گئی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے فون کرکے نوابزادہ صاحب سے پوچھا کہ یہ کیاہوگیا ،توانہوں نے جواب دیا کہ آج تک میر واسطہ ا سیاستدانوں سے رہا پہلی بار کسی تاجر سے واسطہ پڑا تو احساس شکست ہوا۔نوابزادہ نصراللہ بلا کے ذہین،اچھے منتظم جوڑ توڑ کے ماہر ،اچھے شاعر اور غضب کے مقرر تھے ۔ایسے آدمی جو قدرت نے اب ہمیں دینے بند کردیئے ہیں کہ ہم نے ایسے اصول پرستوں کی بجائے "زرپرستوں"کی پرستش شروع کردی۔آج25 ستمبر1979ءکو ہی چوہدری ظہور الہی کو لاہورمیں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔چوہدری صاحب پاکستان کی سیاست کے تن مردہ میں دوڑنے والا خون نہیں بلکہ پارہ تھے۔گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ ہویا ذوالفقار علی بھٹو،انہیں کوئی جھکا سکا اور نہ خرید سکا ۔وہ گجرات کے علاوہ اپنا زیادہ وقت لاہور کے سیاست کدوں میں گزارتے۔ جب70ءمیں پیپلز پارٹی برسراقتدار آگئی تو اسکے مخالفین ذہنی طور پر شکست کا شکار ہوگئے۔مسلم لیگ کے سربراہ میاں ممتاز دولتانہ برطانیہ میں ہائی کمشنر بن کرچلے گئے ۔ایک اور ©"مردآہن "خان عبدالقیوم خان کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی وزارت میں داخلہ کاقلمدان سونپ دیا۔مسلم لیگ (ق)میں بھی اب سوائے چوہدری ظہور الہی کے باقی سب خس وخاشاک باقی رہ گیا۔پیرصاحب پگاڑہ بھی(LOW PROFILE) میں چلے گئے۔پورے ملک میں باالخصوص پنجاب میں صرف چوہدری ظہور الہی تھے جو اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ 70ءسے 77ءتک پنجاب کی سیاست کی آبرو بن کر پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرتے رہے جس کی پاداش میں پنجاب کے گورنر غلام مصطفے کھر نے انہیں جان سے مروانے کے لئے بلوچستان بھیج دیا۔جب گورنر بلوچستان نواب اکبر بگٹی کو علم ہوا تو انہوں نے سخت لہجے میں خبردار کیا کہ یہ کام میرے صوبے میں نہیں ہوگا۔مصطفے کھر سے کہو کہ اگر ظہور الہی کو مروانا ہے تو پنجاب لے جائے ۔یوں اکبر بگٹی کی وجہ سے چوہدری صاحب کی جان کو آیا ہوا خطرہ ٹل گیا۔چوہدری ظہور الہی کا دسترخوان بڑا وسیع تھا۔وہ متواضع کی حد سے نکل کر "بندہ نواز"بن چکے تھے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38