شاعر نے ایک حقیقت کو کس قدر بصیرت افروز انداز میں الفاظ کا جامہ پہنایا ہے کہ
”بس اتنی سی حقیقت ہے جہاں میں خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ بن جائے
عصر حاضر کے دانشور، مزاح نگاری میں منفرد مقام کے حامل ادیب اور لاہور ہائیکورٹ بار کے سابق صدر احمد جاوید جیلانی اسی حقیقت کی لذتو ں میں ڈوب کر ملک عدم سدھارگئے، یوں تواحمد جاوید جیلانی بنیادی طور پر قانون دان تھے۔ انہوں نے لاہور ہی میں قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اسی شہر سے قانون کی پریکٹس کا آغاز کیا مگر قانون کی پریکٹس کے دوران ہی میں انہوں نے اپنے علمی اور ادبی ذوق کی تشکیل کیلئے مزاحیہ افسانے لکھنے شروع کئے۔ پاکستان میں علم و ادب کا میدان اردو مزاح نگاروں کے لئے قریباً قریباً خالی ہوچکا تھا عرصہ دراز سے اس میدان کو صحیح معنوں میں پر کرنے کیلئے تھا عرصہ دراز سے اس میدان کو صحیح معنوں میں پر کرنے کیلئے کسی بھی طرف سے طبع آزمائی دیکھنے میں نہیں آرہی تھی اگرچہ شاعری میں طنز و مزاح کا سلسلہ دیکھنے میں توآتا تھا مگر نشری طور پر یہ صنف خال خال ہی دیکھنے کو ملتی تھی۔ ویسی فضا میں احمد جاوید جیلانی نے اس میدان میں اپنے قلم کی جولانیوں سے ایک عالم کو متاثر کیا۔ یہ آج سے ربع صدی سے بھی زائد عرصہ کا واقعہ ہے قانون دان احمد جاوید جیلانی کا عالم شباب تھا۔ تاہم وہ رشتہ ازواج سے منسلک ہوچکے تھے۔ کہ ان کے قلم سے ”تصویر شوہر“ اور ”تصویر بیگم“ کے نام سے طنزو مزاج سے عبارت افسانوں کے مجموعے منتظر عام پر آئے۔ اردو ادب کے میدان طنزو مزاح میں احمد جاوید جیلانی کی کاوش تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی اور ان تصانیف کو عوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔ خصوصاً قانون دان حلقوں میں ان دنوں احمد جاوید جیلانی کے ان افسانوں کا چرچا زبان زدعام ہونے لگا۔ ان کی طنزو مزو مزاح سے عبارت نگارشات کی مقبولیت ہی کی بنیاد پر اس دور میں پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے ان کے کئی افسانوں کی ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ جنہیں دیکھنے والوں نے بیحد پسند کیا۔ اس حقیقت کے علی الرغم احمد جاوید جیلانی انتہائی ہنس مکھ، منکسر المزاج شریف النفس، کھرے، سچے، صاف گو، ہمدرد، انسانیت دوست، غریب پرور، دوستوں کے دوست تو تھے ہی بلکہ دشمنوں کے بھی خیر خواہ تھے، سانولے سلونے ہوتے ہوتے بھی اپنے چہرے کے تیکھے نقوش کی بنا پر ایک دلکش انسان تھے۔ یہی وہ خوبیاں تھیں، جن کے باعث ان کے یہی خوابوں، مداحوں اور محبت کرنے والوں کی تعداد لامحدود تھی۔ اسی بنیاد پر تو احمد جاوید جیلانی ملک کی سب سے بڑی قانون دانوں کی تنظیم لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نہ صرف جانے پہنچانے تھے بلکہ انہیں اپنی ذاتی چاہتوں اور خوبیوں کی بنا پر عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ یہی وہ حقائق ہیں جنہوں نے احمد جاوید جیلانی کو ایک وقت میں ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے نائب صدر منتخب کیا۔ اور اسی دوران جب بار کے صدر جناب خالد رانجھا لاہور ہائیکورٹ کے جج بنادیئے تو بار کے قواعد و ضوابط کے تحت نائب صدر احمد جاوید جیلانی مسند و صدارت پر جلوہ افروز ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ احمد جاوید جیلانی کا قانون دان ہوتے ہوئے علم و ادب سے گہرا لگاﺅ کوئی اچنبے کی بات نہیں تھی۔ ان کا خاندانی پس منظر علم و ادب سے مالا مال تھا۔ ان کے والد گرامی خورشید انور جیلانی راولپنڈی کے نامور قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے شاعر اور ادیب بھی تھے۔ گویا احمد جاوید جیلانی کو اس حوالے سے وراثت میں بھی ادبی ذوق ملا تھا۔ اسی بنیاد پر ان کے وسیع مطالعے نے انہیں ہر موضوع پر کھل کر بات کرنے اور بحث و مباحثہ کا ملکہ عطا کیا تھا۔ دوستوں کی محفل بالخصوص لاہور ہاہیکورٹ بار کے بار روم میں جہاں بھی ہوتے شمع محفل ہوتے۔ ان کے ارد گرد یاروں کا ہجوم ہوتا اور احمد جاوید جیلانی بلبل ہزار داستان کی طرح چہچہاتے نظر آیا کرتے۔ کبھی کبھی اپنی روایتی حس ظرافت کے تحت مزاحیہ انداز بھی اختیار کرتے مگر ایسی گفتگو میں بھی احتیاط برتتے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہوتی ہو۔جیلانی مرحوم حقیقی معنوں میں محب وطن پاکستانی اور خالصتاً نظریاتی آدمی تھے۔ بانی¿ پاکستان حضرت قائداعظم اور علامہ اقبال کی تعلیمات کی روح سے پاکستان کے عوام کو روشناس کرایا جائے تو بہت سی سماجی برائیاں ختم ہو جائیں۔ غالباً اسی وجہ سے انہوں نے ازخود ”غریب عوام پارٹی“ کے نام سے ایک غیر سیاسی تنظیم قائم کی جس کے زیراہتمام وہ ان دنوں نیشنل سنٹر الفلاح بلڈنگ شاہراہ قائداعظم پر تقریبات بھی منعقد کراتے رہے۔ جس میں مختلف موضوعات پر متعلقہ ماہرین کو مدعو کر کے ان کے خیالات سنے جاتے۔ مگر ایسے تمام اجتماعات جو غریب عوام پارٹی کی طرف سے ہوا کرتے سراسر غیر سیاسی ہوتے عوامی اور شہری مسائل کے اپنی مدد آپ کے تحت حل کے لئے آگہی قسم کے پروگرام سے عبارت ہوا کرتے۔ ملک کے نامور قانون دانوں سے ان کے نیاز مندانہ تعلقات رہے۔ ان کا نام عزت و احترام سے لیا کرتے بالخصوص ایسے قانون دانوں کے بارے میں حلقہ یاراں میں سے کسی کو تنقید یا طنز کرنے کا حق دینے کو تیار نہ ہوتے تھے۔
احمد جاوید جیلانی کیا تھے؟ کس کینڈے اور سوچ کے مالک تھے؟ قانون دان حلقے میں کہاں سے چلے کہاں تک پہنچے اور ایسے تمام سفر کے دوران ان کی سوچ و فکر میں ایک ہی دھن سمائی رہی کہ قیام پاکستان کے محرکات کو پاکستانی عوام بالخصوص نوجوانوں کے ذہنوں میں زندہ رکھنا چاہئے۔ چنانچہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ احمد جاوید جیلانی نے برسوں پہلے اس پروگرام پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا کہ وہ ہر سال 23 مارچ کو اپنے دوستوں اور ان کے بچوں کو مینار پاکستان لے کر جاتے۔ اس مقصد کے لئے دو یوم قبل ہی تمام دوستوں کو ٹیلی فون پر تیاری کی تلقین کرتے۔ اس کے لئے قومی پرچم خود تیار کر کے لے کر جاتے۔ ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی بڑی حد تک خود کرتے۔ مینار پاکستان کے سامنے کھڑے ہو کر ملکی سلامتی کی دعا کراتے اور پھر وہاں کسی نہ کسی مہمان کو 23 مارچ کے حوالے سے اپنی نظم سنانے یا نثر پڑھنے کی دعوت دی جاتی۔ کئی مرتبہ تو ایسے مختصر سے اجتماع میں جو مینار پاکستان پر صبح صبح قریباً چھ سات بجے ہی ہوا کرتا تھا۔ انجمن ہلال احمد لاہور کے سابق ڈائریکٹر‘ ڈاکٹر اقبال سرہندی اپنا کلام سنایا کرتے۔ ڈاکٹر اقبال سرہندی 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے موقع پر انجمن ہلال احمر پنجاب کے لاہور آفس کے انچارج اور جنگ میں زخمی ہونے والے پاکستانی فوجیوں کے لئے خون کی ریکارڈ بوتلیں جمع کرنے میں بڑی شہرت کے حامل تھے۔ ڈاکٹر صاحب عمدہ نغز گو شاعر بھی تھے۔ جو احمد جاوید جیلانی کے کہنے پر 23 مارچ کی صبح اپنے سکوٹر یا گاڑی پر مینار پاکستان آیا کرتے تھے۔بہرحال اپنی بے پناہ خوبیوں‘ اپنی طرز‘ سوچ و فکر کا مالک صف اول کا قانون دان‘ نامور مزاح نگار‘ ادیب‘ دانشور‘ محب وطن پاکستان احمد جاوید جیلانی 20 ستمبر 2017ءبدھ کی صبح خالق حقیقی سے جا ملے۔ چند برس قبل دماغ میں جمنے والے خون کے لوتھڑے نے ان کی طبیعت اور صحت کو متزلزل کر دیا ہے۔ اسی علالت کے باعث احمد جاوید جیلانی حلقہ یاراں سے کٹ کر رہ گئے۔ زبان سے گل و بلبل کی باتوں سے عبارت پھول جھڑنا رک گئے کیونکہ سننے والوں کا جمگھٹا جو نہ ہوا۔ یار لوگ غالباً گردش حالات میں الجھ کر رہ گئے۔ بڑی شخصیتیں اور بزعم خود مقتدر ہستیوں کو فراموش کرنے کی روایت نے آ لیا۔ مگر شاید قدرت کو انسانوں کی پستی میں وضعداری و رواداری کا دم گھٹنا گوارا نہیں ہوتا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024