تحمل مزاج‘ بردبار‘ دور اندیش‘ صابر‘ خدا ترس‘ اصول پسند‘ وقت کا پابند‘ نیک سیرت‘ پرہیز گار‘ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرنے والا‘ محبت کا مجموعہ‘ کاروبار سے لگن۔ ان تمام خوبیوں کو جمع کیا جائے تو میاں محمد شریف کی شخصیت سامنے آتی ہے۔بھارتی پنجاب کے ایک گائوں جاتی عمرہ میں پیدا ہونے والا یہ شخص اپنے باقی چھ بھائیوں کا لاڈلا بھائی تھا۔ اپنے باقی بھائیوں کی طرح قیام پاکستان سے قبل ہی لاہور میں قسمت آزمائی کیلئے آگئے۔ ابتدائی تعلیم کے ساتھ محنت مزدوری بھی کرتے رہے۔ تمام بھائیوں کے لاڈلے تھے اس لئے ان کو سب بھائی ’’بائو‘‘ کہتے تھے۔ سب چاہتے تھے کہ ان کا یہ بھائی تعلیم حاصل کرے۔ ہماری طرح روزانہ کی مزدوری نہ کرے۔ یہ سب بھائی ایک ہندو کے ہاں بھٹی پر ملازم تھے اور مٹی اور توڑی سے بھرے ٹوکرے اٹھاتے تھے۔ پھر ایک دن ان کے بھائیوں کا ’’بائو‘‘ سے ٹوکرا اٹھانے پر ہندو سے جھگڑا ہو گیا۔ بائو جی نے پانچ سو روپے کسی سے ادھار لیکر ایک بھٹی خریدی اور سات بھائیوں کے چودہ ہاتھوں نے مل کر کام شروع کر دیا۔ یہ لوگ دن رات کو بھول گئے۔اتفاق اور اتحاد کے باعث اللہ تعالیٰ کے کاروبار کو جمع کی بجائے ضرب کی شکل میں ترقی دی اور یہ ساٹھ کے عشرے میں اتفاق فائونڈری کی شکل میں پاکستان کے بہت بڑے فولادی کارخانے کے مالک بن گئے۔ 1972ء میں اس فائونڈری کو اس وقت کی حکومت نے قومی تحویل میں لے لیا۔ خاندان کے سب لوگ پریشان تھے کہ اب کیا کیا جائے۔ سب کاروبار ختم ہو گیا‘ لیکن اس باہمت شخص نے اگلے روز صبح ہی معمول کے مطابق شہبازشریف سے کہا کہ ’’شہباز تیار ہو جائو‘‘ کام پر جانا ہے۔ شہباز نے پوچھا کون سا کام؟ ہمارے پاس تو کچھ نہیں رہا۔ جواب دیا‘ دفتر موجود ہے‘ آئو چلتے ہیں‘ نئے کام کا آغاز کرتے ہیں۔ اس فولادی شخص نے جاوید پرویز کارپوریشن اور پھر بعد میں نواز شہباز لمیٹڈ کے نام سے کاروبار شروع کر دیا اور دو تین سال کے اندر ہی پھر اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے حالانکہ اس وقت کی حکومت نے ان کے کاروبار کو تباہ کرنے میں کوئی کس نہ اٹھا رکھی تھی۔ بینکوں تک کے دروازے بند کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر انسان کے عظیم حوصلے اور یقین کے آگے تمام رکاوٹیں ڈھیر ہو جاتی ہیں۔ کچھ ہی عرصے میں اتفاق برادر اور اتفاق ٹیکسٹائل‘ اتفاق شوگر مل لگا ڈالی۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں اتفاق فائونڈری ان کو واپس مل گئی۔ اس طرح میاں صاحبان کی یہ محنت ایک بڑے صنعتی گروپ میں تبدیل ہو گئی۔ اس دور میں میاں شریف صاحب نے اپنے بیٹے میاں نوازشریف اور شہبازشریف کو میدان سیاست میں اتارا۔ ان ہی کی رہنمائی ہی میں دونوں اس ملک کی خدمت کرتے رہے۔میں ان چند لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے میاں شریف کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میاں صاحب سے میری پہلی ملاقات میاں نواز صاحب‘ میاں شہباز صاحب کی شادی میں ہوئی جب میں بمشکل دس سال کا تھا۔ مجھے یاد ہے اس وقت انہوں نے مجھے بڑے شوق سے ان پہلوانوں سے ملوایا تھا جو دوسرے شہروں سے شادی میں شرکت کیلئے آئے تھے۔رمضان کے دنوں میں ان کی خیرات بڑھ جایا کرتی تھی۔ میڈیکل کے آلات اور ہسپتال کا دوسرا سامان خریدنے میں کبھی تامل نہ برتتے جس وقت بھی رقم کی ضرورت ہوتی‘ میاں صاحب چند گھنٹوں میں اس کا انتظام کر دیتے تھے۔ 22 اگست 1997ء میں بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ہسپتال میں پانی بھر گیا جس سے تقریباً اڑھائی کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ میاں صاحب کو جب یہ بتایا کہ اس مشین کے بغیر مریضوں کی تشخیص میں مشکل پیش آئے گی‘ انہوں نے فوراً پوچھا کتنی رقم چاہئے اور مطلوبہ رقم کا انتظام چند گھنٹوں میں ہوگیا۔ اتفاق ہسپتال کے نظام کو چلانے کیلئے اپنے بھتیجے میاں جاوید شفیع کو اپنے ساتھ رکھا۔
فروری 1998ء میں شریف میڈیکل سٹی اور انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس پر تقریباً ایک ارب روپے کا خرچہ آیا اور 1998ء میں اس نے کام شروع کر دیا۔ اس وقت میاں صاحب کی زیادہ توجہ شریف میڈیکل سٹی کی طرف ہوگئی۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ ہسپتال جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے اور اس میں اتنا ہی رش ہو جتنا اتفاق ہسپتال میں ہوتا مگر شہر سے دور ہونے کی وجہ سے اس میں مریضوں کا رش نہ ہوا۔ اس ہسپتال کے سامان کی خریداری کیلئے انہوں نے اپنے پوتے حسین نواز کو دنیا کے کئی ملکوں میں بھیجا تاکہ جدید ترین سامان خریدا جائے۔ جب ہسپتال نے کام شروع کیا تو میاں صاحب روزانہ مریضوں کی تعداد پوچھا کرتے کہ آج کتنے مریضوں کا علاج کیا گیا۔ شریف میڈیکل سٹی میں مریضوں کی کم تعداد کا سن کر انہیں افسوس ہوتا تھا اور وہ کافی عرصے تک ہسپتال کے عملے کی تنخواہیں بھی اپنی جیب سے اداکرتے رہے۔
12 اکتوبر 1999ء کے فوجی انقلاب کے وقت میاں شریف صاحب کے بیٹوں اور پوتوں کو قیدوبند کی صعوبتوں سے گزارا گیا۔ میا ں شریف کو ان کے گھر پر ہی قید کردیا گیا۔ میں واحد شخص ہوں جو اس واقعے کے بعد 19 اکتوبر کو ان سے ملا۔ ان کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی پریشانی اور تشویش نہ تھی۔ 20 اکتوبر 1999ء کو آرمی نے ان کی رہائش گاہ پر مجھے Detain کیا اور ایک بڑے قافلے کی شکل میں مجھے میاں صاحب کے گھر سے محفوظ پورہ لاہور کینٹ میں ایک ریسٹ ہائوٹ میں لے جایا گیاجہاں 36 دن جنرل مشرف کی حکومت اور ان کی ایجنسیاں کارروائیاں کرتی رہیں۔ رہائی کے بعد میاں صاحب نے مجھے حوصلہ دیا۔ وہ کبھی میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف سے ملنے جیل نہ گئے‘ وہ حکومت کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ نہ وہ جذباتی ہیں نہ کمزور‘ مضبوط قوت ارادی ان کی شخصیت کا جوہر تھا۔ میرے نزدیک شکست ان کو ہوتی ہے جو شکست تسلیم کرتا ہے۔پھر 19 دسمبر 2000ء کو وہ دن آیا جب سارے خاندان کو سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا۔ غریب الوطنی کے اس دور میں بھی مرد آہن نے ہار نہ مانی اور سعودی عرب میں بھی ایک سٹیل مل لگائی۔ یہ ان کی وطن سے محبت کا عالم تھا کہ انہوں نے اپنی اولاد کو مرنے کے بعد رائوے ونڈ میں تدفین کی وصیت کی تھی۔ 29 اکتوبر 2004ء کو جمعہ کے روز شام کے وقت ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ان کی نمازجنارہ حرم پاک میں ادا کی گئی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ محنت کریں اور باقی سب اللہ پر چھوڑ دیں‘ وہ رزق دینے والا ہے۔ میرے خیال میں یہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024