ریاست کی سلامتی اور عوام کے تحفظ کیلئے اس سے بڑھ کر قربانی اور کیا ہو گی کہ پولیس کا ایک اعلیٰ افسر بلوچستان میں اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ شہید کر دیا جاتا ہے‘ پاک فوج کا جواں سال افسر ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران اپنی جان قربان کر دیتا ہے۔ اس طرح کی شہادتیں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ کوئی ایک دن گزرتا ہے تو دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے شہید ہونے والے پاک فوج کے افسران و جوانوں کی شہادتوں کی خبر آجاتی ہے۔ بلاشک و شبہ پاکستان اس وقت پوری طرح حالت جنگ میں ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ یہ جنگ سرحدوں پر توپ خانہ اور ٹینکوں کے ساتھ نہیں بلکہ ملک کے اندر دکھائی نہ دینے والے دشمنوں کیخلاف لڑی جا رہی ہے۔ جو کہ روایتی ہتھیاروں کے ساتھ سرحد پر لڑی جانے والی جنگوں سے کہیں زیادہ پیچیدہ‘ مشکل اور خطرناک ہے۔ دوسری طرف ملک میں سیاسی انتشار اور اقتدار کی رسہ کشی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ملک کی سلامتی اور حکومتی نظام دو الگ چیزیں ہوں ورنہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک طرف آگ لگی ہو اور لوگ اسے بجھانے اور آگ میں گھرے لوگوں کی مدد کرنے کی بجائے اپنے معاملات میں مصروف رہیں۔ 15 نومبر 2016 ء کو بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تربت میں گروک کے علاقے میں پنجاب کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے 15 نوجوانوں کو اس وقت بے دردی سے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ جب وہ سہانے مستقبل کے خواب سجائے انسانی سمگلروں کے ذریعے غیر قانونی طور پر ایران کے راستے یورپ جانے کی کوشش میں تھے۔ پاکستان میں بے روزگار نوجوانوں کی اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کریوں ایجنٹوں کے ذریعے دیار غیر جانے کی یہ پہلی خبر نہیں‘ یہ سلسلہ نہ جانے کب سے جاری ہے۔ کوئی ترکی میں تاوان کے لئے یرغمال بنا لیا جاتا ہے کچھ کی لاشیں اٹلی کے قریب سمندر میں تیرتی ہوئی ملتی ہیں یا وہاں پکڑے جانے والے پاکستانیوں کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ لازمی طور پر کچھ نوجوان اپنے مقاصد میں کامیاب بھی رہتے ہونگے لیکن حکومت کی طرف سے بھاری رقم کے عوض بے روزگار پاکستانی نوجوانوں کو یوں موت کے منہ میں دھکیلنے والے ایجنٹوں کے خلاف کارروائی اور غیر قانونی عمل کو روکنے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کی خبر آج تک سامنے نہیں آئی۔ گو یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن بلوچستان میں ایک ہی روز 15 نوجوانوں کو یوں قتل کیا جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسانی سمگلروں نے بجائے نوجوانوں کو سرحد پار کرانے کے انہیں ان پاکستان دشمن عناصر کے ہاتھ بیچ دیا جن کے لئے پاکستان میں دہشت گردی کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔
ابھی لوگ 15 نوجوانوں کے بہیمانہ قتل کا دکھ بھول نہیں پائے تھے کہ 18 نومبر کو بلوچستان کے ضلع تربت میں دوران گشت لیویز فورس کو پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے 5 نوجوانوں کی لاشیں ویرانے میں پڑی ملیں۔ انہیں گولیوں سے چھلنی کیا گیا تھا۔ بعد ازاں دہشت گردوں کا نشانہ بننے سے بچ جانیوالے نوجوان حیدر علی نے پنجاب میں اپنے گھر پہنچنے پر 20 نومبر 2017 کو پولیس اور صحافیوں کو بتایا کہ ایجنٹوں کے ذریعے پنجاب سے اکٹھے جانے والے وہ 15 لوگ تھے کوئٹہ پہنچنے پر 15 مزید نوجوان بھی ان کے گروپ کا حصہ بن گئے تو انہیں دو گاڑیوں میں تقسیم کر کے ایران کی سرحد پار کرانے کیلئے روانہ کر دیا گیا۔ راستے میں ایک مقام پر ان کی گاڑی میں نقص پیدا ہونے پر ڈرائیور نے خرابی کا جائزہ لینے کیلئے گاڑی روکی تو پہلے والی گاڑی 15 نوجوانوں کو لے کر آگے چلی گئی۔ ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کر کے آگے بڑھائی ہی تھی کہ شدید فائرنگ کی آواز آئی جس سے خوفزدہ ہو کروہ اور اسکے ایک دوست نے گاڑی سے چھلانگ لگائی اور ویرانے میں ایک طرف دوڑ لگا دی۔یوں وہ جان بچا کر گھر واپس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ علیحدگی پسند بلوچ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے 20 نوجوانوں کی لاشیں دستیاب ہو چکی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی نوجوان یا تو ابھی تک دہشتگردوں کے قبضے میں ہیں یا انہیں بھی قتل کرکے کہیں ویرانے میں پھینکا جا چکا ہے۔ دونوں صورتوں میں ان نوجوانوں کا دستیاب ہونا نہایت ضروری ہے۔ علاوہ ازیں مارے گئے نوجوانوں میں گاڑیوں کے ڈرائیور بھی شامل تھے یا نہیں اس کی تصدیق زندہ بچ جانے والا حیدر علی ہی کرسکتا ہے۔ نہیں تو پھر اس امر میں کوئی شک نہیں کہ گاڑیوں کے ڈرائیور بھی دہشتگردوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے جس کے بعد بلوچستان میں صوبائی حکومت ہو یا سکیورٹی کے وفاقی ادارے انہیں بلوچستان سمیت پورے ملک میں ان جرائم پیشہ افراد پر بھی کڑی نظر رکھنی ہو گی جو چند ٹکوں کی خاطر اگر غیر قانونی کام کر سکتے ہیں تو بھاری معاوضے پر ان کیلئے دہشت گردوں کی سہولت کاری میں کیا برائی ہو سکتی ہے۔ ضروری نہیں انسانی سمگلروں کو علم ہو کہ انہوں نے سرحد پار کرانے کیلئے اکٹھے کئے گئے نوجوانوں کو جن عناصر کے ہاتھ فروخت کیا ہے وہ ان سب کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسکے باوجود وہ 20 نوجوانوں کے قتل میں شراکت دار ہیں۔
صرف بھارت ہی نہیں پاکستان کی سلامتی کے خلاف متحرک دیگر قوتوں کو علم ہے کہ پاک فوج نے صوبہ بلوچستان‘ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سمیت کراچی میں ان کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کیلئے اپنی کارروائیوں کو جاری رکھنا مشکل بنا دیا ہے۔ فاٹا میں آہنی باڑ کی تعمیر اور بلوچستان میں باڑ کی تنصیب کے علاوہ افغانستان سے ملحق سرحد پر خندق کی کھدائی نے براستہ افغانستان دہشتگردوں کی آمد کو روکنے میں کامیابیاں ضرور حاصل کی ہیں لیکن بھارتی وزیراعظم کی 2016 ء میں پاک چین تجارتی راہداری منصوبے ’’سی پیک‘‘ کو کسی بھی قیمت پر روکنے اور اسے ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے دی جانیوالی دھمکیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان میں سرگرم بھارت کے سرکاری دہشت گرد کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر ’’را‘‘ کے پاکستان میں سرگرم مزید بہت سے ایجنٹوں کے پکڑے جانے کے باوجود ابھی بھی ایسے کچھ نہ کچھ عناصر وطن عزیز میں ضرور موجود ہونگے جنہیں ضرورت پڑنے پر پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ ہو بھی رہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے اپنے خفیہ ادارے ’’را‘‘ میں ’’سی پیک‘‘ کو ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے ’’خصوصی سیل‘‘ کا قیام اسے فراہم کی گئی 500 ملین ڈالر کی خطیر رقم معمولی بات نہیں اور نہ ہی ہمارے ملک میں ایسے کمزور ایمان لوگوں کی کمی ہے جو ڈالروں کی خاطر اپنی خدمات دشمنوں کو پیش کرنے سے انکار کریں۔بلو چستان میں علیحدگی کیلئے سرگرم عناصر کی طرف سے بے گناہوں کے قتل خود کش دھماکوں بلوچستان سے دیگر صوبوں کو جانے والی قدرتی گیس کی پائپ لائنوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے‘ ریل کی پٹڑیاں اکھاڑنے یا زائرین کو نشانہ بنانے جیسی کارروائیاں سب پاکستان کی سلامتی پروار کا طریقہ ہے جس کا سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے اگر مسئلہ بلوچ عوام کی پسماندگی کا ہوتا تو اسکے نام پر بندوق اٹھانے والے سب سے پہلے اپنے ان بلوچ سرداروں کا احتساب کرتے جو صدیوں سے بلوچ عوام کا استحصال کرتے چلے آرہے ہیں ماضی کی چھوڑیے گزشتہ دس برسوں میں بلوچستان میں صحت و تعلیم اور تعمیر و ترقی کیلئے وفاق کی طرف سے بلوچستان کو فراہم کئے گئے فنڈز کا جائزہ لیجئے تو افسوسناک قسم کے حقائق سامنے آئینگے کہ بلوچ عوام کی پسماندگی کے نام پر سیاست چمکانے اور اسکی بنیاد پر پنجاب کو گالی دینے والے بلوچ سردار کس طرح سرکاری خزانے کو لوٹ کر بیرون ملک اپنے ذاتی ’’اکاؤنٹس‘‘ میں منتقل کرتے رہے لیکن اسے جواز بنا کر کسی کو بلوچستان کی علیحدگی کا علم بلند کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی تو بعض بلوچ سرداروں کی ہوس زر اور حد سے بڑھتی ہوئی کرپشن میں وہاں کے پسماندہ عوام کا کوئی قصور نہیں‘‘ وجوہات کی بنا پر حکومت نے بلوچستان میں عام لوگوں کی بہبود اور صحت و تعلیم سمیت دیگر جدید سہولتوں کی ہر جگہ پر اپنی سطح تک پہنچانے کیلئے دس سالہ ترقیاتی پیکج ’’ خوشحال بلوچستان ‘‘کا اعلان کیا ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک تو جتنا جلدی ممکن ہو سکے اس ’’پیکج‘‘ پر کام کا آغاز کیا جائے تاکہ نہ صرف بلوچ پسماندگی پر بیرون ملک پروپیگنڈہ کرنے والوں کا منہ بند کیا جا سکے۔