ایک سال ایک دن پہلے 14ویں قومی اسمبلی کے ارکان نے حلف اٹھایا تھا۔ یکم جون 2013ء کوحلف اٹھانے والے11مئی2013ء کے الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے اس طرح نہ صرف موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے کی طرف بڑھ رہی ہیں بلکہ 2018ء کے الیکشن کی تیاریاں شروع ہوگئیں ہیں۔ قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے بجٹ کو بھی الیکشن بجٹ کہا جا رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سول حکومت نے(2008-13) اپنی مدت پوری کی اور اقتدار دوسری منتخب حکومت کے حوالے کیا تھا۔2018ء کے ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں دوسری مرتبہ یہ تاریخ لکھی جائیگی کہ الیکشن ہوئے اوراکثریتی پارٹی کو اقتدار مل گیا۔ 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میںپاکستان مسلم لیگ کے 125ارکان کے ساتھ پہلے نمبر پر جبکہ پی پی پی دوسرے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہی۔ ووٹرزکی کل تعداد 84,207,524 تھی جبکہ 45,388,404 ووٹ کاسٹ ہوئے اسطرح55.02% ووٹ پڑنے کی شرح رہی مخصوص نشستوں کے اضافے ،آزادارکان کی شمولیت اورضمنی انتخابات کے نتیجے میںآج پارٹی پوزیشن یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن)کے 189پی پی پی کے47، تحریک انصاف نے حکمران پارٹی کوناک آئوٹ کرنے کی بہت کوشش کی الیکشن میں دھاندلی کے نام پر تحریک چلائی اوردھرنا دیا لیکن کامیابی نہ مل سکی۔ اسمبلیوںسے استعفعوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ واپسی کا راستہ اختیارکرنا پڑا۔ پانامہ لیکس نے تحریک انصاف کی جان میں نئی روح پھونک دی جس کی گونج آج بھی موجود ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میںوزیراعظم کے بیٹے حسین نواز تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے اور تقریباَ َ2گھنٹے تک اپنابیان ریکارڈکرایا۔ ان ساری تحریکوں، دھرنوں اوراحتجاج کے عمل میںپاکستان مسلم لیگ(ن) میں مریم نوازکی شکل میں نئی لیڈرشپ ابھری ہے سب سے پہلے تو وہ بے نظیرانکم سپورٹ کی سربراہ کے طور پراور بعدازاں تعلیم اورفلاحی کاموںکے حوالے سے سامنے آئیں۔ وزیراعظم نوازشریف کے دورہ امریکہ کے دوران وائٹ ہائوس میں امریکہ کی خاتون اول نے مریم نوازکی باضابطہ رونمائی کرائی اس طرح نوازشریف کے بعدمریم نواز بطور لیڈر سامنے آگئیں۔مریم نوازکے بروقت ٹوئیٹ نے بھی سیاسی محاذ پرتھرتھلی مچارکھی ہے۔2018ء کے الیکشن میں عمران خان کامقابلہ مریم نوازکے ساتھ ہوگا۔بلاشبہ میاں نوازشریف اور شہباز شریف بھی میدان میں موجودہونگے لیکن مریم نوازاور عمران خان کے درمیان الیکشن کی جنگ ہوگی۔
عمران خان اس وقت پاکستان کے مقبول ترین لیڈرہیںلوگ انکوسننے کیلئے جاتے ہیں۔عمران خان نے اپوزیشن لیڈرکے طور پراپنا لوہا منوایا ہے۔ پیپلزپارٹی اور اپوزیشن لیڈرسیدخورشیدشاہ (معذرت کے ساتھ)کوکوئی اہمیت نہیں دیتا۔ تحریک انصاف کی بدقسمتی یہ ہے کہ پارٹی میں سیکنڈکلاس لیڈرشپ ہیںاسکے ساتھ ساتھ الیکشن لڑنے کی کوئی حکمت عملی نہیں اورنہ ہی کوئی ہوم ورک ہے۔
مریم نوازنے چارسال وزیراعظم ہائوس میں بیٹھ کرحکومت چلانے کاتجربہ حاصل کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومتی سطح پربہترین اندازمیں میڈیا سیل چلارہی ہیں۔ماضی میں اپوزیشن میڈیاپرہمیشہ چھائی رہتی تھی اورحکومت بیک فٹ پرنظرآتی تھی لیکن آج صورتحال مختلف ہے۔میں کسی غلط یاصحیح کی بحث میں نہیں پڑ رہا بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میڈیا پر بھرپور مقابلہ ہو رہا ہے اور یہ صرف مریم نوازکی صلاحیتوں کی وجہ سے ہے۔مریم نوازکومزیدکام کرنے کی ضرورت ہے حکومتی تجربہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سیاست کرنے کی ضرورت ہے، Public Appearance کی ضرورت ہے، ٹوئیٹ کے ذریعے عوام سے رابطہ رکھناٹھیک ہے لیکن یہ کافی نہیں مزید آگے بڑھنا چاہئے۔ایک اوراہم بات یہ ہے کہ مریم نواز کے Vision کالوگوں کومعلوم ہوناچاہئے۔عمران خان سے مقابلہ کرناآسان نہیں ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ مریم نوازبھی Crowd Puller ہونگی اورلوگ اپنے طور پر انکو دیکھنے اور سننے کیلئے جائینگے۔JIT میں میاں نوازشریف کا مستقبل کچھ بھی ہو مریم نوازکو تیاری کرنی ہوگی۔ یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان کے دانشوروںمیں ایک بات بہت تیزی سے زیربحث آرہی ہے کہ نوازشریف اور عمران خان آئوٹ ہورہے ہیںان دونوں کے بعد پاکستان کی لیڈرشپ کیا ہوگی۔ کوئی اگر آصف زرداری کانام لیتاہے توبڑے دکھ کے ساتھ کہہ رہا ہوںکہ لوگ قبول نہیں کرتے بلکہ ہنسنے لگ جاتے ہیں۔ بدقسمتی پیپلزپارٹی تیسری قوت بھی نہیں رہی ان حالات میں نئی لیڈر شپ کی تلاش ہے۔ پاکستان میں لیڈرشپ کابہت بڑاخلاء پیداہونے کاخدشہ پیدا ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ میں عمران خان کامقدمہ اس طرح چل رہاہے جس طرح میاں نوازشریف کے خلاف چلا تھا سپریم کورٹ عمران خان کے مقدمے میں بھی تحقیقاتی کمیشن بنانے کے متعلق سوال کررہی ہے۔لوگ تویہاں تک کہتے ہیں کہ اگرمیاں نوازشریف نااہل ہوئے تو عمران خان بھی نہیں بچ سکتا۔ میاںنوازشریف کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ اکیلے نہیں جائینگے۔غلام اسحاق خان نے انکو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا تھا تو سپریم کورٹ نے انہیں بحال کردیااورپھرجب فوج کی طرف سے جانے کافیصلہ ہواتواس شرط پرگئے کہ غلام اسحاق خان کوبھی صدارت سے مستعفی ہونا پڑا۔آج کوئی شرط تونہیں لگائی جاسکتی لیکن حالات ایسے پیداہوگئے ہیں کہ دونوں کے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
دراصل سیاسی معاملات کوعدالتوں کے ذریعے حل کراناکوئی اچھی بات نہیںسیاسی تنازعات کو سیاسی میدانوں میں ہی حل کرناچاہئے۔سکیورٹی رسک ،غدار، کرپٹ اور نااہل قرار دینے کا اختیار عدالتوں کو نہیں دینا چاہئے کیونکہ منتخب لیڈروں کیخلاف فیصلے کرنے کا اختیارصرف اورصرف عوام کی عدالت میں ہوتاہے ۔الیکشن کا سال شروع ہوگیا ہے۔ احتجاجی سیاست کوخیرباد کہنا چاہئے اور الیکشن کی بھرپور تیاری کرنی چاہئے۔اندازہ لگائیں کہ تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) میںشامل ہونے کیلئے پیپلز پارٹی کے اہم راہنمائوں اور دوسری پارٹیوںکے لوگوں کی دوڑلگی ہوئی ہے لیکن دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کے پاس ان لوگوں کوشامل کرنے اور ملنے کیلئے کوئی ٹائم نہیں۔ الیکشن سال شروع ہونے کے باوجودکوئی سیاسی پارٹی الیکشن منشورکی تیاری نہیں کررہی کوئی ہوم ورک نہیں ہو رہا۔ امیدواروںکی تلاش نہیں ہو رہی۔ تحصیل اورضلع کی سطح پر تیاری نہیں ہورہی۔جلدبازی میں بنائے گئے امیدوار اور بغیرکسی تیاری کے منشور بنایا گیا تو اسکاکیا نتیجہ نکلے گا۔ ماسوائے عوام کے سامنے شرمندگی اورکل کو پارٹی اقتدار میں بھی آگئی تو ایسے منشورپرعمل درآمدکیسے ہوگاجوبغیرکسی تیاری کے بنایاگیا ہو۔ مریم نواز اور عمران خان کا بہت بڑا امتحان شروع ہونیوالا ہے۔ایک طرف جوانی ہے تو دوسری طرف مقبولیت، ایک طرف باپ کی وراثت ہے تو دوسری طرف کرپٹ نہ ہونے کادعویٰ۔مریم نوازکوخاتون ہونے کا فائدہ ہوگا تو عمران خان کو قومی ہیرو ہونے پرپذیرائی ملے گی۔ دونوں پارٹیوں کو سندھ پرتوجہ دینی چاہئے۔ پیپلزپارٹی کا اس وقت کوئی مقابلہ نظرنہیں آرہا۔ ہرالیکشن لڑنے والاپی پی پی سندھ میں شامل ہورہاہے۔یہ صرف اورصرف دونوں پارٹیوں کے عدم توجہ کی وجہ سے ہورہاہے۔بحرحال پیپلزپارٹی کولوگ ووٹ دیتے ہیں توخوشی کی بات ہے لیکن مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کوایک صوبے یادوصوبوں کی پارٹی بننے کی بجائے قومی پارٹی بننا چاہئے۔ ان حالات میں پاکستان مسلم لیگ(ن)اورتحریک انصاف کی قیادت کواپنی اپنی صفوں کودرست کرناچاہئے عوام کے پاس جانے کی تیاری کرنی چاہئے۔موجودہ اسمبلی آنے کے بعد اور بحرانوں کے دوران الیکشن میں اصلاحات کی بہت گفتگو ہوئی۔ پارلیمنٹ نے کمیٹی بھی بنائی لیکن بدقسمتی ملاحظہ کریںکہ آج تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ احتجاجی اور مقابلہ بازی کی سیاست پرتوجہ کم ہوگی توملکی اداروں اور جمہوریت مضبوط کرنے کی منصوبہ بندی ہوگی۔ابھی بھی وقت نہیں گزرا تمام سیاسی پارٹیوں کوالیکشن کوصاف اور شفاف بنانے کیلئے قانون سازی کرنی چاہئے الیکشن پر اعتماد ہوگا تو جمہوریت مضبو ط ہوگی۔ تمام ایسے راستے بندکردینے چاہئیںجس کے نتیجے میں دھاندلی ہو سکے۔عوام میں بھی شعورہونا چاہئے اور الیکشن کرانے والوں کو سوچنا چاہئے کہ الیکشن Fair کرانے میں ملکی بقاء ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024