ہماری جغرافیائی سرحدیں جن ممالک سے منسلک ہیں ان میں بھارت افغانستان اور ایران شامل ہیں ۔ ان میں بھارت غیر مسلم اور باقی دونوں مسلم برادر ملک ہیں مگر تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ایران نے سب سے پہلے پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا اور افغانستان نے اس سے اختلاف کیا ۔حالانکہ ایک مسلم برادر ہونے کے علاوہ پاک افغان سرحد کے دونوں جانب بیشمار قبائل سینکڑوں سالوں سے خونی رشتوں میں منسلک ہیں مگر افغانستان پر ہمیشہ ہندو نواز سوچ کا غلبہ رہا ۔ صوبہ سرحد میں موجود سرخ پوش رہنما اپنے آپ کو سرحدی گاندھی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔ انہی کے ذریعے افغان حکومت اور بھارت میں قریبی را ہ و رسم رہے ۔ وہ اس تاریخی حقیقت کو بھی فراموش کر گئے کہ جب تاج برطانیہ افغان شاہ امان اللہ کو معزول کیا تو لاہور میں برطانوی حکمرانوں کے خلاف مولانا ظفر علی خان کی قیادت میں کم و بیش ایک لاکھ افراد نے برطانیہ کی مذمت کرتے ہوئے افغانوں کے ساتھ یکجہتی کا ثبوت دیا مگر افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت ہو یا نور محمد ترکئی اور ببرک کارمل کی ہو یا حفیظ اللہ امین حکمران ہوں ہمیشہ پاکستان دشمنی میں یکساں رہے ۔ اس کے باوجود جب افغانستان میں سوویت یونین نے جارحیت کرتے ہوئے اپنی فوجیں داخل کیں تو حکومت پاکستان نے انصاری جذبے کو جلا بخشتے ہوئے اپنی سرحدیں افغان مہاجرین کے لئے کھول دیں اگر ایسا نہ ہوا تو یہ لوگ آپ کے ملک میں اسلحہ عام کر دیں گے اور منشیات کے انبار لگا دیں گے ۔ آپ کے ٹرانسپورٹ سسٹم پر قابض ہوجائیں گے اور آپ کی معیشت کو برباد کرکے رکھ دیں گے ۔ صدر جنرل ضیاءالحق نے ایک بزرگ مسلم لیگی کی نصیحت کو نظر انداز کیا جس کی سزا آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ قدرت کا یہ قانون عام ہے کہ وہ ہر شے کا بدل رکھتا ہے جیسے کالا گورا ، دن رات ، بھارت روز اول سے ہی پاکستان کو مٹانے پر تلا ہوا ہے اور اپنی سازشوں کے ذریعے پہلے ہمیں دو لخت کیا اور اب چار حصوں میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں ہے ۔ پاکستان کے ہر کمزور پہلو کو قوی اور توانا کرنے کےلئے چینی قیادت ہمیشہ فکر مند اور حاضر رہتی ہے ۔ اس سلسلے میں کاشغر سے گوادر تک ایک عظیم اقتصادی راہ داری قائم کرنے کاآغاز کیا گیا جو پاکستان کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر سے گزرے گا ۔ یہ راہ داری منصوبہ جہاں جہاں سے گزرے گا روشنیوں کے مینار ، کارخانے قطار در قطار اور روزگار کے بیشمار مواقع دستیاب ہونگے ۔اس میں اقتصادی ترقی بھی ہے اور دفاعی حکمت عملی بھی پنہاں ہے ۔یہ منصوبہ پورے ایشیاءکے لئے آسائشیں اور آسانیاں پیدا کرے گا ۔ 46ارب کے اس منصوبے کو دیکھ کر عالمی طاقتیں بوکھلا اٹھیں ۔ انہوں نے اسے ناکام کرنے کےلئے طرح طرح کے جال بننے شروع کر دیے ۔شومی قسمت ہمارے حکمرانوں کے پاس حکمت ہے نہ فراصت ہمارے دو برادر مسلم ممالک جنہوں نے ہر برے وقت میں ہمیں سنبھالا اور سہارا دیا ہماری خارجہ پالیسی نہ ہونے کے باعث دونوں کا رخ ہمارے ازلی دشمن بھارت کی جانب ہے ۔ ایک طرف سعودی عرب بھارت سے راہ و رسم بڑھاتے ہوئے دوسری سمت ایران گوادر سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر چاہ بہار بندرگاہ بھارت کے سپردکرتا دکھائی دے رہا ہے ۔ جس مقصد کےلئے ہم گوادر کو استعمال کرناچاہتے ہیں اس کے مقابلے میں چاہ بہار کو تیار کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے ۔ گذشتہ پیر کو ایرانی دارلحکومت تہران میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ، افغان صدر اشرف غنی اور ایرانی صدر حسن روحانی نے چاہ بہار بندرگاہ کو افغانستان سے ملا کر تجارتی مرکز بنانے کےلئے معاہدے پر دستخط کئے ہیں ۔یہ بندرگاہ ایک جانب بحر ہند کے شمال مغرب اور دوسری طرف خلیج فارس اور بحیرہ عمان سے منسلک ہے ۔ اس بندرگاہ پر بھارت کی رسائی اس لئے اہم ہے کیونکہ یہ ایرانی بلوچستان کے علاقے سیستان کے قریب ہے جو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی سرحد سے ملتا ہے ۔ جس طرح پاک افغان سرحد پر بھارت نے کونسل خانے کھول کر تخریب کاری کے مرکز بنا رکھے ہیں وہ اس سلسلے کو وسعت دے کر ایک جانب بلوچستان میں اپنے عزائم کی تکمیل چاہتا ہے دوسری طرف پاک چین راہ داری منصوبہ کو ناکام کرنا چاہتا ہے ۔ ایران کی جانب سے چاہ بہار ایران کے سپرد کرنا ہماری خارجہ پالیسی کی بہت بڑی ناکامی ہے جس سے خطرات اور تحفظات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ قارئین کرام ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہم پاک ایران گیس لائن کا اپنی جانب ابھی تک آغاز نہ کر سکے اور بھارت نے اتنا فاصلہ طے کرکے پوری بندرگاہ حاصل کر لی ۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہمارے امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک سے بھی تعلقات میں سردمہری نظر آرہی ہے ۔ بھارت ہمیں تنہا کرنے میں کامیاب ہی نہیں ہو رہا بلکہ اس کی حاضر سروس فوجی افسر بھی پاکستان میں تخریب کاری کا جال بچھاتے گرفتار ہو رہے ہیں مگر ہماری حکومت اور سیاسی جماعتیں بھارت کے خلاف لب کشائی کی جسارت نہیں رکھتی ۔ بھارتی جارحیت کے واضح ثبوت اقوام عالم کے سامنے پیش کرنے سے بھی کتراتے ہیں ۔ عوام الناس ہیجان بے بسی اور مایوسی کا شکار تب ہوتے ہیں جب ملکی بقاءو استحکام کا سوال اٹھتا ہے ۔ایسے عالم میں جب ریاست کی مقننہ بے حس انتظامیہ ناکام اور حکومت ملکی مفاد سے بے بہرہ ہوجائے تو لوگوں کی نظریں ان شاہراہوں کی طرف اٹھتی ہیں جو آئینی اور جمہوری نہیں ہوتیں ۔ لہذا حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38