اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کیمطابق ملک میں اسلام کے منافی کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ہم اس بحث میں زیادہ نہیں پڑتے تاہم یہ حقیقت ہے کہ سودی نظام ہمارے ہاںرائج ہے۔سود کو قرآن پاک میں حرام قرار دے کر اسے اللہ کے خلاف جنگ کہا گیا ہے ۔یہ جنگ ہمارے حکمران اللہ سے لڑ رہے ہیں اور اللہ سے خیرو برکت کی توقع بھی رکھتے ہیں ۔وفاقی شرعی کورٹ نے 1991ء میں سود کے خلاف فیصلہ دیا مگر یہ نظام اور کاروبار بدستور جاری ہے ۔ہمارے ماہرین معیشت بینکاری میں شرح منافع کو جائز قرار دیتے ہیں۔اس پر اجماع ہونا چاہیے کہ منافع کن صورتوں میں جائز ہے۔معاشی ماہر جن صورتوں میں منافع کو جائز قرار دیتے ہیں اسے بھی سود ہی کہتے ہیں۔وہ کم ازکم اس کا نام ہی بدل لیں۔
ایک دوروز قبل سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نے ایک دن عید منانے کے معاملہ پر اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں چیئرمین رویت ہلال کمیٹی و ارکان کو بلا یا ہے ۔ انگریزی میں اسلامی شعائر کو ان کے اصل ناموں کے ساتھ لکھنے، پڑھنے اور پکارنے کا پابند بنانے کا قانون بنانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ اس ضمن میں قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کیا گیا جس کے تحت انگریزی میں اللہ تعالیٰ، نبی، رسول، صلوۃ،صوم کے الفاظ استعمال کرنے اور لکھنے کے بارے کہا گیا ہے۔کمیٹی سود کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔وہ بینکوں کے منافع کو سود کیس کی اپیل کے فیصلے تک سودکا کوئی اور نام بھی تجویز کردیتی تو بہتر تھا ۔اسے کرایہ ،منافع،یا انٹرسٹ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ نام اب بھی مستعمل ہیں تاہم لکھنے پڑھنے میں زیادہ تر سود ہی آتا ہے۔شربت کو شراب کہنے سے اس کا ذائقہ نہیں بدلتا مگر کراہت کا عنصر اس میں ضرور شامل ہوجاتاہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کاانگریزی میں اسلامی شعائر کو ان کے اصل ناموں کے ساتھ لکھنے، پڑھنے اور پکارنے کا پابند بنانے کا قانون بنانے کی سفارش ایک اہم اقدام ہے۔انگریزی میں کچھ عرصہ پہلے تک نبی آخرالزمان حضرت’’ محمد‘‘ؐ کا نام انگلش میں مختصر کرکے MOHDلکھا جاتا تھا۔اہل ایمان کی بھرپور تحریک پر یہ رجحان تقریباً تقرباً ختم ہوگیا ہے۔مکہ کو اب بھی اکثر MECCAلکھا اور پڑھا جاتاہے حالانکہMAKKAHدرست ہے جو لکھنا مشکل نہیں۔مکہ کو انگلش میں صحیح ہجوں MAKKAHکے ساتھ لکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔اللہ کا انگریزی میں مترادف ہنوز GODرائج ہے۔کمیٹی اس کو بھی اپنی سفارشات کا حصہ بنا لے تو یہ بھی کار خیر سمجھا جائے گا۔
قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے اجلاس کی صدارت اسکے چیئرمین سینیٹر حافظ حمداللہ نے کی اس میں وزیر مذہبی امور بین المذاہب ہم آہنگی سردار محمد یوسف بھی شریک ہوئے ۔ سینیٹر راجہ ظفر الحق بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیںاس لئے مذکورہ اجلاس کافی معتبر تھا۔ کمیٹی نے ایک دن عید منانے کیلئے آئندہ اجلاس میں مرکزی روئت ہلال کمیٹی کے سربراہ سمیت ارکان کو مدعو کیاہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر حمد اللہ نے کہا کہ رویت ہلال کمیٹی 20 سال سے قائم ہے جو بہت متنازع ہوچکی ہے۔کمیٹی چیئر مین کی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں ہے کہ چونکہ کمیٹی بیس سال پہلے قائم ہوئی تھی اس لئے متنازع ہوگئی ہے۔آئین اس سے بھی 25سال قبل تشکیل پایا وہ تو متنازع نہیں ہوا۔حمداللہ صاحب جس پارٹی کا حصہ ہیں وہ آئین کی تشکیل سے بھی کہیں قدیم ہے۔ وہ بھی اپنا وجود برقراررکھے ہوئے ہے۔رویت ہلال کمیٹی اس لئے متنازع نظر آرہی ہے کہ اس کی سربراہی پر بھی نظر ہے۔کمیٹی کی سربراہی کسی بھی مسلک کے عالم کے پاس ہو،وہ اسی طرح بااختیار ہوگا جس طرح آج مولانا منیب الرحمٰن ہیں۔یہ کمیٹی بغیر کسی دبائو کے کام کررہی ہے۔ قوم کو یاد ہے کہ ایوب دور میںچاند دیکھنے کی شہادتیں رات گئے موصول ہوئیں توذمہ دار علماء نے صدر کی منظوری کے بغیر چاند نظر آنے کا اعلان نہیں کیاتھا۔اس وقت تک صدر صاحب سو چکے تھے۔اگلے روز وہ جاگے تو انکی اجازت کے بعد اعلان کیا گیا۔پاکستان میں ایک دن میں عید ہوجائے تو بہتر ہے۔ مغربی اور مشرقی پاکستان میں ایک ہی روز رمضان کا آغاز اور عید ہوا کرتی تھی۔اب نہ جانے منیب الرحمٰن کی روئت ہلال کمیٹی (جس میں ہرمکتبہ فکر کے علما شامل ہیں) اورپشاور کے مولانا پوپلزئی گروپ نے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے کہ ایک دوسرے کی شہادتوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔پشاور کے علماء کو ملنے والی شہادتوں کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کیوں مسترد کرتی ہے۔کیا ہر دفعہ چند مخصوص لوگ ہی چاند نظر آنے کی شہادت دیتے ہیں۔اگر ایسا ہے تورویت ہلال کمیٹی پشاور والوں کے چاند دیکھنے کی گواہی دینے والوں کو طلب کرکے انکی سقہ ہونے کی حیثیت جاننے کی کوشش کرے ۔جغرافیائی محل وقوع کے حوالے سے ہوسکتا ہے کہ ایک ملک میں چاند ایک ہی دن نمودار نہ ہوتا ہو۔ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ایسا نہیں ہے۔پھر پشاور والوں کو پورے پاکستان سے ایک روز پہلے چاند نظر آجاتا ہے۔ ان پر جھوٹ کی تہمت لگانا بھی مناسب نہیں۔یہ معاملہ انائوں سے بالاتر ہوکر خوش اسلوبی سے حل ہوسکتا ہے۔پشاورکا پوپلزئی گروپ سعودی عرب کے ساتھ عید کرنا چاہتا ہے تو قوم کو چاند دیکھنے کے الجھاوے اور افتراق میں تو نہ ڈالے۔ سعودی عرب کے ساتھ ایک ہی روز میں عید کرنے کا کھل کرمطالبہ کریں۔جو بالکل جائز ہے۔چاند سب سے پہلے مراکش میں نظر آتاہے۔اسی مقام کو ریفرنس بنا لیں۔اسکے مطابق پوری دنیا عیدین منائے اور رمضان کا آغاز کرے۔اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ قمری کیلنڈر بھی میں فرق بھی ختم ہوجائے گا۔اب عموماً ہمارے اور سعودی عرب کے کیلنڈر میں ایک دن کا فرق ہوتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38