حضرت خواجہ ابو الحسن امیر خسرو کے نام کا کتبہ دیکھا تو رک کر سلام پیش کیا ۔ آپ خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید تھے اور وہیں انکے قدموں میں ہی دفن ہوئے ۔ کون ہے جس نے امیر خسرو کا نام نہیں سنا ہوگا لیکن شائد ہماری آنیوالی نسلیں ان عظیم بزرگوں کے دنیاوی کارناموں سے ناآشنا ہیں ۔امیر خسرو ایک ترک سردار کے بیٹے تھے ۔پٹیالہ میں پیدا ہوئے اور والد کے انتقال کے بعد دہلی تشریف لے گئے تھے ۔ وہ فارسی اور ہندی کے شاعر تھے ۔ اردو کا پہلا شعر بھی انہی کے نام کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے ۔ قوالی کے موجد ہیں ۔ہندوستانی موسیقی میں ان کا اہم کردار ہے ، ترانہ ، قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے ۔راگنی(ایمن کلیان) بھی حضرت خسروکے ذہن کی پیدوار ہے ۔،طبلہ اور ستار بھی انہی کی ایجاد کہی جاتی ہے ۔ستار پر تیسرا تار بھی آپ نے ہی چڑھایا ۔موسیقی اور شاعری کے ساتھ ساتھ دربار سے منسلک ہونے کی وجہ سے اس زمانے کے سیاسی اور سماجی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے ۔آٹھ سلطنتیں گزار چکے تھے ۔"پیا پیا میں کرت ہوں پہروں،پل بھر سکھ نہ چین"لکھنے والے امیر خسرو جنہوں نے جنسی تعصب یا امتیا زسے اوپر اٹھ کر عورت کے لباس میں شاعری کی ہو انکے مزار کے باہر "آستانہ شریف میں عورتوں کا جانا منع ہے 'لکھا دیکھ کر حیرت اور تکلیف ہوئی ۔جب انسان دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو اس کے نام اور کام کے ساتھ جو بھی ہو وہ دنیا میں باقی رہ جانے والوں کے ہتھے چڑ ھ جاتا ہے ۔ انسانیت کے گیت گانے والینجانے کتنے اس قبرستان میں دفن ہیں ۔ بہت سی اور بھی قبریں نظر آئیں اور انکے اردگرد پھرتے بچے بالے ۔ کھلے صحن میں بچوں کیساتھ ناکافی چادروں میں لپٹی مائیں ۔ تکیے کی جگہ کوئی پوٹلی ۔ کیا زندہ انسانوں کے رہنے کیلئے بھی قبرستان ہی ہیں ؟ کوئی اس میں دفن ہونیوالوں سے باہر زندہ درگور لوگوں کی قسمت کے بارے میں پوچھے تو سہی !ایک اپاہج بچہ جو سڑک پر رینگ رہا تھا ۔ میں نے اس سے پوچھا جانتے ہو یہ کن لوگوں کے مزار اور قبرستان ہے ؟ اس نے بہت اچھی اردو میں بتایا کہ مجھے بس یہاں سے خیرات اچھی مل جاتی ہے ، اور میں کچھ نہیں جانتا ۔ دو بچے ہمیں اگر بتیاں جلانے میں مدد کر رہے تھے ۔ میں تصویر لینے لگی۔ بچہ فورا بو لا ، ہمارا فوٹو نہ لینا ۔۔ انسانیت اور محبت کے مزار کے بعد ڈاکٹر تقی نے ٹھان رکھی تھی کہ ہمیں مزار ِ غالب بھی دکھائیں گے ۔ رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا ۔ مگر ڈاکٹر صاحب تیز تیز قدم اٹھاتے ہمارے آگے آگے چل رہے تھے ۔"قریب ہی ہے" ۔۔ساتھ ساتھ ہمیں تسلی دے رہے تھے" اسی بستی نظام الدین اولیا ء میں ہے" ۔ راستے میں وہی دلی کے مشہور کتے جو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس قدرزیادہ تعداد میں کیوں ہیں ؟ راستے میں دیواروں پر اسلامی کانفرنس اور اللہ اور رسول سے محبت کیلئے چندہ وغیرہ مانگنے کے پوسٹر چپکے نظر آئے ۔ وہاں اسلام پھیلا ہوا تھا اور گلیوں میں گندگی کے ڈھیر تھے ۔ تعفن اس قدر تھا کہ مجھے ناک پر دوپٹہ رکھنے کے باوجود اپنی سانس بار بار روکنا پڑ رہی تھی ۔ بقر عید گزرے بہت دن گزر چکے تھے مگر ایک لکڑی کے پھٹے کے نیچے خون ،چربی اور بکرے کا کچھ ناکارہ گوشت پڑا تھا ۔ یہ بدصورت نظارہ اور اس میں سے نکلنے والی سڑاند میری آنکھوں اور نتھنوں سے اکھٹے ٹکرائی ۔ لاکھ ڈھیٹ ہونے کے با وجود میری قہ نکل گئی ۔ اور میرا سر چکرانے لگا ۔ "خواجہ نظام الدین کی درگاہ"، موسیقی اور محبتوں کا شہنشاہ' امیر خسرو" انکے مزاروں سے برصغیر کے سب سے بڑے شاعر" مرزا غالب' کی قبر کی طرف کا یہ تنگ گلیوں میں سفر انتہائی عجیب تھا۔میں اسے قدرت کی ستم ظریفی سمجھوں یا انسانوں کی بے اعتدالی اور ناانصافی۔ "مزار غالب "نہایت سادہ سی عمارت پر سادگی سے لکھا نظر آیا ۔ اور باہر گندگی کے ڈھیر تھے ۔ اندر ایک سفید ماربل کی معمولی سی قبر نظر آئی گیٹ بند تھا ۔ اندر نہیں جا سکے ۔ اور یہ شعر یاد آگیا :
یہ لاش بے کفن اسد خستہ جاں کی ہے
حق ِ مغفرت کرے ،عجب آزاد مرد تھا
مرزا غالب کی شاعری کے ساتھ ساتھ وہ خطوط جن میں ان کی ہستی کی اور ارد گرد کے حالات کی سچی تصویر ہے ،1857کی جنگ ِ آزادی اور اسکے نتائج ،اجڑی دہلی اور لاشوں کے انبار، خون یہ سب غالب جیسے حساس انسان نے دیکھا ۔ بغاوت کے بعد جب انگریز نے آخری مغل بادشاہ کو ملک بدر کر دیا تو غالب بھی اپنے گھونسلے میں چھپ گیا۔ کلکتہ جو اس وقت انگریز کا درالحکومت تھا ، جب وہاں گئے تو انگریز کی سائنسی ترقی اور انتظامی صلاحیتوں سے بہت مرعوب ہوئے ،یہی اور اسی طرح کی انگریز سرکار کی تعریفوں میں ڈوبی ڈائر ی جو ،1857کے حالات اور واقعات پر ۔ غالب کی حویلی جس میں غالب نے اپنے آخری ایام گزارے دلی میں ہی عجائب گھر بن چکی ہے ۔ غالب زندہ ہوتے تو نجانے کیا کہتے :
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پہ کہتا تھا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
غالب کے مزار کی خستہ حالی دیکھ کر دکھ ہوا ۔سمجھ نہیں آئی کہ انڈین گورنمنٹ جو کہ بہت ہوشیاری سے معیشت کی دنیا میں آگے بڑھ رہی ہے ۔ وہ اس مزار پر تھوڑی سی توجہ دے کر اسے ٹورسٹ کیلئے بہت اچھی کشش بنا سکتے ہیں ۔دلی کی ان تنگ و تاریک ، گندگی اور بو سے اٹی ہوئی گلیوں میںغالب کیسے چین سے مر سکتا ہے ۔ میں نے وہاں فٹ پاتھوں پر پڑے فقیر وں میں غالب کو محسوس کیا :
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل ِ کرم دیکھتے ہیں
شائد کچھ لوگوں کی زندگی اور موت دونوں ٹریجک رہتی ہیں ۔ غالب کے نام کا ڈنکا بجتا رہے گا ۔ شاعری کا بادشاہ کہلوائے گا ۔ مگر زندگی بھی قرض میں ڈوبے اورپھر شائد غالب کو جواب بھی خود ہی معلوم تھا :
تنگی دل کا گلہ کیا یہ وہ کافر دل ہے
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا
سو کچھ جگہوں پر تنگی ٗ دل دکھا کر شائد اپنی پریشانی سے نجات پائی جاتی ہے ۔ رات کا ااندھیرا غالب کی قبر پر پھیلا ہوا تھا ۔ خوشامد کی راہ اختیار کی یا انا پرستی دکھائی ،اس آزاد مرد کو تقدیر نے لوگوں کی احسان فراموشی تلے دبانا تھا سو دبا دیا ۔ جب ہوٹل کے کمرے میں واپس پہنچی تو جسم تو تھکان سے چور چور تھا ہی ، روح پر عجیب سے گھائو محسوس ہورہے تھے ۔ کس کی بے حسی ہے ؟ کاش پاکستان میں ہمیں غالب کی "داستان بوئے "بھی پڑھائی جاتی ۔
ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا
برصغیر کے شاعری کے بادشاہ کی آخری آرام گاہ کی حالت ِ زار دیکھ کر باقی کی رات غالب کا یہی شعر میرے کان میں سرگوشی کرتا رہا :
نہ بزم اپنی ، نہ ساقی اپنا ،نہ شیشہ اپنا ،نہ جام اپنا
اگر یہی ہے نظام ہستی تو غالب زندگی کو سلام اپنا
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38