ہمارے شہر میں افضل نام کا ایک آدمی تھا۔ کسی زمانے میں پنجاب بار کونسل میں کلرک یا سپرنٹنڈنٹ وغیرہ کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ روزانہ "بابو ٹرین" پر لاہور سے آتا تو گوجرانوالہ ریلوے سٹیشن کے ٹی روم پر دن بھر کے واقعات سناتا۔ ایک دفعہ بتانے لگا کہ آج کسی شہر سے ایک وکیل صاحب کی ڈگریوں کی تصدیق کرنے کیلئے کچھ لوگ اس کے پاس پنجاب بار کے دفتر پہنچے۔ تب بارکونسل کا دفتر اتنا بڑا نہیں تھا۔ موجودہ عمارت کے قریب ہی ایک گلی میں کہیں آگے جاکر ایک چھوٹا ساکمرہ تھا جس کے تہہ خانے میں ریکارڈ محفوظ ہوتا اور اوپر دفتری امور سرانجام دیئے جاتے۔ وہ لوگ وکیل صاحب کی ڈگری کی تصدیق کیلئے اس کلرک کو ملے تو اس نے خوب چھان پھٹک کر بتایا کہ ہمارے ریکارڈ میں اس کی پیش کردہ ڈگریاں غیر مصدقہ ہیں لیکن میں تحریری طور پر آپ کوکوئی مواد فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ اس سے ایسے تنازعات جنم لیتے ہیں جو تباہی کے راستے کی طرف جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ وکیل صاحب کو پنجاب بارکونسل کا جعلی کارڈ اسی کلرک نے بنا کر دیا تھا، تصدیق چاہنے والے واپس آگئے۔ تصدیق کرنے والوں اور وکیل صاحب کے درمیان پھر صلح ہو گئی۔ وقت گذرتا رہا اور ایک دن جعلی لائسنس رکھنے والے وہی وکیل صاحب پنجاب کی ایک ضلعی بار کے صدر بھی منتخب ہوگئے اوراس عہدے سے خوب پیسہ کمایا۔ اب پنجاب کی تمام بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات آیا ہی چاہتے ہیں۔ وکلاء صاحبان سے گذارش ہے کہ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں۔ مفتی عبد القوی صاحب کو ہمارا الیکڑانک میڈیا فلمی ستاروں اور ماڈلز کے ساتھ بٹھا کر کسی فضول قسم کے موضوع پر کئی بار بحث کراتا نظر آیا۔ مفتی صاحب بھی شائد اس میں خوش رہتے ہوں گئے۔ ایک بار تو انہیں خواجہ سرائوں کے"گرو" الماس بوبی کے ساتھ بھی بڑی بے تکلفی سے ان کے حقوق کے تحفظ پر بات کرتے سنا بلکہ یہ پروگرام سننے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ایسے ہی ایک بار کسی چینل پر مفتی صاحب اور لاہور سٹیج کی ایک رقاصہ "میگھا" آمنے سامنے تھے۔ بڑی دیر کسی لایعنی موضوع پر گفتگو کرتے کرتے بات اچانک میڈیا کے اینکرز وغیرہ کی طرف مڑ گئی تو میگھا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ اب تک ایک نہیں میڈیا کے کئی لوگوں کو حج بیت اللہ کروا چکی ہیں۔ یہ ایسا انکشاف تھا کہ ریموٹ کنڑول ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی چینل نہ بدلا گیا۔ اس کے علاوہ کچھ مذہبی رہنمائوں کا بھی اس نے ذکرکیا کہ ان کو باقاعدگی سے چندے دیتی ہیں۔ ضیاء الحق کے دور حکومت میں مذہب کا غلط استعمال بہت کیا گیا۔ سیاست سے لے کر فلم انڈسٹری تک اس کے اثرات گئے۔ ایسی ایسی فلمیں بنیں جن میںبغیر کسی موقع محل کے جسے فلم کی زبان میں"سیجوایشن" کہا جاتاہے ایسے ایسے مناظر فلمائے گئے جن سے مذہب کا غلط استعمال صاف نظر آتا تھا۔ فلم کی ہیروئن کیلئے دوپٹہ لازمی قرار پایا چاہے پہاڑی علاقوں کے پس منظر یا ساحل سمندر پر کتنی ہی تیز ہوائیں چل رہی ہوں۔ فلمسازوں نے دوپٹے بھی شائد سیمنٹ کے تیار کروا لئے کہ سر سے اڑ نہ سکیں۔ ایسے ہی ایک فلم کی اشتہار بازی میں روزانہ لکھا نظر آتا کہ "سلطان راہی اور سانپ کو اکٹھے نماز پڑھتے دیکھیں" شادیوں کی رونقیںبڑھانے والے بھانڈوں نے بھی"وحشی مولوی" سمیت فلموں کے عجیب عجیب نام رکھ دیئے ۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلم لیگ(ن) کے کئی وزراء اور ممبران قومی اسمبلی کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔10سالہ معاہدہ کرکے نواز شریف سعودی عرب چلے گئے توان سابق ممبران اسمبلی کوبھی جیل کی دیواریں کاٹنے کو دوڑنے لگیں سب نے سرکار سے معافی مانگنے کیلئے کمریںکس لیں اور مشرف کی شرائط پر پورا اترنے کے وعدے کے بعد جیلوں سے رہا ہونے شروع ہوگئے۔ اتنے میں دیکھتے ہی دیکھتے 2002 آ گیا۔ قومی انتخابات کانقارہ بجا تو انتخابی میدان میں اتر کرایک بار پھر منتخب ہوئے اور مشرف کے وزیر بن گئے ۔ جو زیادہ بڑے فنکار تھے وہ مشرف کے جانے کے بعد اب مشرف کی بجائے نواز شریف کے وزیر تھے ایسے ہی عوامی نمائندوں میں کچھ لوگ ایک جیل میں اکٹھے ہی قید تھے۔ جیلوں میں رہتے ہوئے اللہ بڑا یاد آتا ہے کئی تو اپنی ساری عمر کی قضاء نمازیں یہیں پوری کرتے ہیں۔ یہ سب رہنما بھی پانچوں نمازیں بڑی باقاعدگی سے باجماعت اداکرتے۔ ان میں جو سب سے زیادہ اور معروف نوسرباز اور کرپٹ تھا وہ امامت کراتا تھا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد دعا بھی اسکے ذمہ تھی۔ ایک بار رٹی رٹائی دعا مانگی کہ اے اللہ ہمارے رزق میں فراوانی عطا فرما تو ایک مقتدی نے باآواز بلند کہا کہ خدارا ایسی دعا نہ مانگو کیونکہ رزق کی فراوانی کے سبب ہی تو ہم جیل میں ہیں۔
امام صاحب پہلے خود ن لیگ کے MNA تھے ،اب ن لیگ کے ایکMNA کے باپ ہیں اور مقتدی ایک طاقت ور وزیر۔ گذشتہ دنوں اخبارات کے بین الاقومی صفحات پر یکے بعد دیگرے ترکی اور بنگلہ دیش کے بارے میں دو دلچسپ خبریں پڑھنے کو ملیں۔ دونوں ممالک کی قومی "مس حسینہ" کے اعزازات واپس لے لئے گئے کیونکہ ان میں سے ایک نے اپنی صیحح عمر چھپائی تھی اور دوسری کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس نے اپنی شادی کے بارے میں غلط بیان حلفی داخل کیا تھا کہ وہ کنواری ہے جبکہ وہ شادی شدہ نکلی گویا جھوٹ تو حسن کے بازار میں بھی سختی سے منع ہے۔ ہمارے ملک میں حسینائوں کو تو چھوڑیں حکمران تک اس سے باز نہیں آتے۔ جھوٹا بیان حلفی دینے کے باوجود ابھی تک ان سے تاج واپس نہیں لئے گئے۔ ہمارے کچھ نام نہاد علماء اور دانشور خاص طورپر جو نجی ٹی وی چینل پر آکر اکثر وبیشتر قوم کو گمراہ اور مایوس کرنے میں کمال کا درجہ رکھتے ہیں وہ اپنے علاوہ دیگر سب کو بے ہنر اور بے علم گردانتے ہیں۔ "خبط علم" کے شکار ان لوگوں کو سن کر ایک کہاوت یاد آجاتی ہے۔کہتے ہیں کے ایک بار اسی طرح کا ایک عالم چلتے چلتے ایک بستی کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بستی کے باہر ایک شیطان بیٹھا رسیاں بٹ رہا ہے کوئی چھوٹی اور کوئی درمیانی اور کوئی بڑی رسی۔ عالم نے پوچھا کہ اے شیطان یہ تورسیاں کس لئے بٹ رہا ہے اور یہ چھوٹی بڑی کیوں ہیں۔ شیطان نے جواب دیا طرح طرح کے لوگ ہوتے ہیں کوئی سود خور تو کوئی قاتل، کوئی بدکار تو کوئی جھوٹ بولنے والا، کوئی یتیموں کا مال کھانے والا تو کوئی قومی خزانہ لوٹنے والا۔ بس ان سب کے گلے کے حساب سے رسیاں بنا رہا ہوں۔ عالم نے کہا کہ کیا تیرے پاس ایسی بھی کوئی رسی ہے جو تومجھ ایسے عالم فاضل کے گلے میں بھی ڈال سکے۔ شیطان نے جواب دیا کہ نہیں تمھارے لئے رسی کی ضرورت نہیں تم جیسے عالموں کو تو میں غرور اور تکبر کے نشے سے ہی مار دیتا ہوں، رسی ضائع نہیں کرتا۔
آج کل ہم ایسے ہی موٹے موٹے، پتلے پتلے اور درمیانے سائز کے نام نہاد علماء اور دانشوروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں جو ہماری راہ کھوٹی کررہے ہیں، محض پاپی پیٹ کی خاطر۔ یہ بھول کرکہ ایک دن وہ قبروں کے کتبے بن جائیں گے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی لوٹ مار تو ہم سب کے سامنے ہے جسکا نوٹس لیکر سپریم کورٹ نے قوم پر احسان کیا ہے۔ ہر وہ گھرانہ جہاں سے ایک بھی بچہ ان اداروں میں جاتاہے جنہیں ادارہ لکھتے ہوئے بھی قلم شرمسار ہے وہ سب ان کی لوٹ مار سے آگاہ ہونگے۔ عجیب مخمصہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا مال حکام لوٹ لیتے ہیں اور نجی تعلیمی ادارے والدین کو۔ ریاست ہے کہ مجرم بن کر کھڑی ہے۔ چند سالوں بعد ملک چلانے والے بچوں کو تعلیم تک نہیں دے سکتی۔