ایک دانشور نے کہا تھا کہ ’’کسی معاشرے کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کیلئے یہ دیکھا جائے کہ اُس میں خواتین سے کس قسم کا رویہ رکھا جاتا ہے‘‘ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں خواتین جو کہ ملک کی تقریباً آدھی آبادی پر مشتمل ہیں سے جس قسم کا برتائو کیا جاتا ہے وہ بے حد غیر منصفانہ اور تذلیل آمیز ہے۔مئی کے مہینے میں سات ڈاکوئوں نے رسول آباد، خیرپور میں رات کے وقت ایک گھر میں داخل ہو کر وہاں پر موجود 4 عورتوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس طرح اُن بے گناہ خواتین کی تمام پونچی اور عصمت لُٹ گئی۔ اسکے بعد کیا ہوا وہ ہم سب کے علم میں ہے کہ اس قسم کے معاملات میں پولیس کا کیا رویہ ہوتا ہے۔ جب وہ ایف آئی آر درج کرانے کیلئے پولیس سٹیشن گئے تو اُن کو کہا گیا کہ وہ بدنامی سے بچنے کیلئے صرف ڈاکے کی رپورٹ درج کروائیں۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے درخواست گزار پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا۔ اصل مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین کیساتھ زیادتی کے معاملات میں ڈاکٹروں سے اس سلسلے میں رپورٹ حاصل کرنے کیلئے بھی پولیس کی اجازت کی ضروری ہے۔ملک عزیز میں خواتین کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہمارے دیہی علاقوں میں خاص طور اُنکے ساتھ جانوروں سا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ عورتیں صرف اُنکے مردوں کے ناموں سے پہچانی جاتی ہیں۔ مثلاً فلاں کی بہن، بیٹی یا زوجہ وغیرہ غرض کہ ملک کی آدھی آبادی حو کھانا پکاتی ہے، صفائی کرتی ہے، کپڑے دھوتی ہے، بچے پالتی ہے اور اپنے گھر کا خیال رکھتی ہے گمنامی کی زندگی گزار رہی ہے۔خوش آئند اور حواصلہ افزا بات یہ ہے کہ اب اس ضمن میں تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ چنانچہ اہلیان رسول پورنے مشترکہ طور پر کوششیں کیں اور وہ آبروریزی (ریپ) کی ایف آئی آر درج کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ اُسکے بعد سے سکھر اور کراچی میں اس سلسلے میں دھرنے دئیے جار رہے ہیں تاکہ مظلوم خواتین کو انصاف مہیا کیا جا ئے۔ اُن خواتین نے انصاف کے حصول کی خاطر بدنامی کو ترجیح دی مگر ملک عزیز میں انصاف کا حصول کو جوئے شیر لانے کے مترداف ہے اور سات میں سے دو ملزمان ابھی تک گرفتارہو سکے ہیں۔ ایک اور واضح مثال مختاراں مائی کا معاملہ ہے وہ 2002ء میں ضلع مظفر گڑھ کے ایک گائوں میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی اور 3 سال کا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے اس کیس کا ازخود نوٹس لیا لیکن پھر اُس بدقسمت عورت کو انصاف نہ مل سکااور عدالت نے چھ میں سے پانچ ملزمان کو ’’ناکامی شہادت‘‘ کی بناء پر بری کر دیا اوراس طرح مختاراں مائی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے بھی انصاف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔قارئین! پاکستان میں خواتین کے ساتھ جو رویہ روا رکھا جاتا ہے وہ ہر لحاظ سے قابل ِ مذمت ہے ۔ ملک کی آدھی آبادی کو اُس کے جائز حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں تو حوا کی بیٹی کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جبکہ ہمارا مذہب اسلام عورتوں کے ساتھ محبت، شفقت اور انصاف کا برتائو کرنے پر زور دیتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے کہ اپنی عورتوں کے ساتھ اچھاسلوک کرو کیونکہ قیامت کے دن اسکی پُرسش ہو گی۔ خواتین کے ساتھ زیادتی چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو قابل مذمت ہے۔ خاص طورپر ایک اسلامی ملک میں اس کا کوئی جواز نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلے میں ایسے قوانین وضع کئے جائیں کہ خواتین کیلئے انصاف کا حصول سہل اور آسان ہو جائے اور اُن کو اس کیلئے سالوںدربدر ٹھوکریں نہ کھانا پڑیں نیز اس ضمن میںپولیس کا کردار بھی انتہائی مایوس کن ہے۔ خواتین سے زیادتی کے سلسلے میں پولیس کی طرف سے میڈیکل رپورٹ کے حصول کیلئے پیشگی اجازت کی شرط کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ امید کی جاتی ہے کہ عوام کے ووٹوں سے معرضِ وجود میں آنیوالی حکومتیں ملک کی آدھی آبادی یعنی خواتین کو مردوں کے برابر سہولیات مہیا کریںگی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38