بیس کروڑآبادی سے زائد کے ملک پاکستان کے اکثر علاقے اور ڈھائی کروڑ آبادی کا شہر کراچی گزشتہ بیس سال سے جلائو، گھیرائو، تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہے۔دن دھاڑے اغوا، ڈکیتی،تاوان اور کرپشن روزمرہ کا "محاروہ" بنا ہوا ہے۔ان تمام ترحالات پر زبانی کلامی کو بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے لیکن تحقیقی اور علمی انداز میں گزشتہ پچیس سال کے دوران کوئی مستند اور جامع تحریر شاید ہی دیکھنے میں آئی ہو۔یہ امر انتہائی خوش آئیند ہے کہ ایک تجربہ کار معروف بیورو کریٹ ، دانشور اور محب الوطن پاکستانی انعام الرحمان سحری نے دیار غیر میں بیٹھ کر ایک تاریخی دستاویز تحریر کی ہے جو محققین اور فیصلہ سازوں کے لیے اب ایک اہم حوالہ ثابت ہو گی ۔ یہ تاریخی دستاویز دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ کتاب کا عنوان ہے "The Living History of Pakistan" Vol. III and IVبرطانیہ میں چھپنے والی یہ کتاب Amazon Books کے ذریعے ہر قاری با آسانی آن لائن بھی حاصل کر سکتا ہے۔ کتاب کے مندرجات کراچی کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے قابل عمل رہنمائی کرتے ہیں۔یہ کتاب ان سوالوں کا مدلل جواب دیتی ہے کہ کراچی میں امن کیوں قائم نہیں ہو رہا۔یہ شہر کیوں جل رہا ہے۔ اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے مصنف نے ان حقائق کو بھی آشکارہ کیا ہے جو اکثریت کے ادراک سے باہر تھے۔یہ کتاب پاکستان کی وزارت داخلہ،سندھ کی ہوم منسٹری اور ہماری عدلیہ کے لیے معاونت کے ساتھ ساتھ میڈیا سے متعلق صاحب دانش اور محب الوطن صحافیوںکے لیے بڑی رہنمائی رکھتی ہے۔ کتاب کی یہ دونوں جلدیں کراچی سے متعلق ہیں ۔اس سے پہلے سحری صاحب نے اسی عنوان سے دو جلدیں اور بھی تحریر کی ہیں۔پہلی دونوں جلدیں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے قومی دولت لوٹنے اور "Intellectual Corruption" کی حیرت انگیز داستانیں لیے ہوئی ہیں۔سحری صاحب نے ان کتابوں میں پاکستان کے آئین میں کی جانے والی ترامیم کے پس منظر میں موجود ان حقائق کو دستاویزی حوالوں سے آشکارہ کیا ہے کہ جن کی بنیاد پر حکمرانوں نے اپنے سیاسی اور خاندانی مفادات کو تحفظ فراہم کیا۔مصنف کا "Thesis" ہے کہ پاکستان میں تمام تر لوٹ مار اور "Plunder" جمہوریت اور آئین کے لبادے میں کی کئی۔ ملک کے سیاسی اور عسکری حکمرانوں نے بلا تخصیص عوام کو آئین اور قانون کی سربلندی اور جمہوریت کے نعرے کا دھوکا دے کر اپنے مخصوص مفادات کو حاصل کرتے ہوئے عوامی حقوق اور مفادات پر ڈاکہ ڈالا۔ان کا خیال ہے کہ اس عمل میں عدلیہ کے بعض ججز نے حکمرانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں معاونت کی۔ سحری صاحب اس بات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں کہ ایسی آئینی ترمیموںنے پاکستان میں اصل جمہوریت کی بجائے موروثی بادشاہت کو مروج کیا ہے۔ان کے مطابق ان بڑی سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات بھی ایک ڈھونگ سے کم نہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ججزاور جرنیلوں کے کردار کے حوالے سے بھی انہوں نے چار ضخیم جلدیں قلمبند کی ہیں۔یہ کتابیں ہماری عدالتی تاریخ اور ججز کے حوالے سے چونکا دینے والے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ان جلدوںمیں ایسا تحقیقی مواد ہے جسے اس موضوع پر ہماری تاریخ کی مستند دستاویزقرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کتابوں کی اشاعت بھی برطانیہ کے ایک نامور پبلشنگ ادارے نے کی ہے۔انعام الرحمان سحری ایک محقق، مصنف اور ناقد ہیں۔ انہوںنے سی ایس ایس کرنے کے بعد 24سال تک پولیس سروس اور ایف آئی اے میں خدمات انجام دیں۔انہوں نے ایف آئی اے میں تعیناتی کے دوران بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے خلاف مالی بد عنوانیوں اور وائٹ کالر کرائمز کی فائلیں تیار کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ان دونوں بڑی حکمران جماعتوں کی نظر میں وہ ایک نا پسندیدہ شخصیت رہے ،جس کی پاداش میں انہیں اپنی پولیس سروس چھوڑ کر برطانیہ میں پناہ لینی پڑی۔ تعلیم اور تحقیق سے ان کا تعلق ابتداء ہی سے رہا۔برطانیہ ہجرت کرنے سے پہلے بھی انہوں نے دوران ملازمت پاکستانی عوام کی سماجی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر سات کتابیں تحریر کیں ان میں سے چند کتابوں کو سوشیالوجی کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ انعام الرحمان سحری صاحب نے جن دوسرے موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔ان میں دہشت گردی، قتل،خودکشی، عورت جرائم کی دلدل میں،وادی کے اندر آدمی، پولیس عوام رابطے اور شادی شامل ہیں۔سحری صاحب نے انتہائی سنجیدہ ، حساس اور اچھوتے موضوعات پر ایک ایسا مستند تحقیقی مواد آئیندہ نسلوںکے لیے فراہم کر دیا ہے جو مستقبل کے محققین اور پاکستان کے سیاسی نظام کو "Derail"کرنے والے عوامل کے تعین میں کلید ی رہنمائی کرتا ہے۔ "اللہ کرے زور قلم اور زیادہ"۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024