یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم اس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں اخلاقی اقدار کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان بیمار معاشرے کے تن مردہ میں جان ڈالنے کے خواہشمند ہیں۔ وہ یہ ذمہ داری یا تو وقت کے حکمرانوں پر ڈالتے نظر آتے ہیں یا دانشوروں اور صوفیائے کرام کو یہ ذمہ داری سونپتے نظر آتے ہیں۔ درحقیقت بیمارمعاشرہ کیا ہے؟ اسکا جواب ڈاکٹر اظہر وحید اپنی کتاب ”پہلی کرن“ میں کچھ اسطرح سے ذکر کرتے ہیں کہ بیمار معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں پر فرد کو اس وقت تک بے عزت سمجھا جائے جب تک کہ وہ خود کو عزت دار ثابت نہ کرے اور جہاں عزت کی سند حاصل کرنےکا واحد ذریعہ دولت ہوتا ہے۔ اب یہ معاشرہ کسے پنپتا ہے اور اسکے اجزائے ترکیبی کیا ہیں، تو ان تراکیب میں خود غرضی، نفسا نفسی، ہوس دولت اور اس جیسے کئی محرکات اکیلے ہو جاتے ہیں۔ تاہم ایک خوشحال اور مستحکم معاشرے کا وجود پھر خیال اور مشکل نظر آنے لگتا ہے۔ اسکا جواب بھی ڈاکٹر اظہر وحید کچھ اسطرح دیتے ہیں کہ معاشرہ اس وقت خوشحال نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا ہر فرد اس کےلئے اپنے اپنے مفادات کی زکوٰة نہ نکالنے لگے۔ وہ کہتے ہیں کہ مفاد پرستی ایک بچگانہ فعل ہے بچے کو حرکت میں لانے کےلئے بطور دلیل شیرینی ہی کافی ہوتی ہے۔ سو ایک خود غرض اور ایک مخلص میں وہی فرق ہوتا ہے جو نادان بچے اور ایک دانا بالغ میں ہوتا ہے۔ ہم عرصہ دراز سے منزل کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں لیکن منزل پر پہنچنا تو بہت دور کی بات اسکا ادراک بھی حاصل نہیں کر سکے ہیں اور ادراک کےلئے سوچ کی پختگی اور گہرائی بہت ضروری ہے۔ اعجاز فیروز اعجاز نے شاعری کی کتاب ”سوچنا پڑے گا“ لکھ کر واقعی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم علاج و زوال کے درمیان کے مسافر ہیں جو کہ اپنی سمت کھو چکا ہے۔ وہ معاصر مسائل پر سیر حاصل بحث کرتے نظر آتے ہیں بلکہ ان مسائل کا درد مندانہ تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ انکا نظریہ ہے کہ ایک قلم کار کا فرض ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی پہلوﺅں پر نظر رکھے لہٰذا وہ شاعری کو قرض اور فرض کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ معاشرتی شکست دریخت سے بیزار نظر آتے ہیں۔مادیت پرستی، ہوس زر اور اس قسم کے عناصر کو معاشرے کےلئے زہر قاتل سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اظہار خیال کے لیے جس صنف کو استعمال کیا اس میں شاعری کو مستند حکام حاصل ہے۔ وہ اخلاقی اقدار کو زندہ رکھنے، ادویات کو متحرک رکھنے اور عملی جدوجہد کو کسی بھی معاشرے کے فروغ کےلئے لازمی اور جزولاینفک کی حیثیت دیتے ہیں۔ اس مقصد کےلئے چھوٹی اور بڑی بحروں کا استعمال آسانی سے کر جاتے ہیں۔ معاشرتی اصلاح کا کوئی بھی پہلو ہو ہمارا اصل مقصد یہ ہے کہ کسطرح انسانی اقدار کی بحالی ممکن ہو سکے اور کس طرح روبہ زوال اخلاقی اقدا رکو بچایا جا سکے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر اظہر وحیدکا خیال ہے کہ اگر ہم مغرب والوں سے مختلف کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے اخلاقیات ان سے مختلف ہونی چاہئیں لیکن ہم اس عنصر کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اخلاقی اقدار کی بحالی کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔ کنفیوشس کا نظریہ ہے کہ جب حکمران ملک میںاصلاح چاہتے تھے تو سب سے پہلے اپنے دلوں کو دوست کرتے تھے۔ دوسرے اخلاقی اقدار کی بحالی تھا جو معاشرے کی بنیادوں کو استحکام بخشتی ہیں۔ مغربی معاشروں کا اصل مقصد مسلمانوں کو انکے اقدار اور نظر یات سے ہی دور کرنا تو ہے جو کہ مسلمانوں کا سرمایہ اور کامیابی کی دلیل ہیں۔ اسکے بغیر جمہوریت ریاست اقتدار اور عوام کے حقوق سب کچھ ادھورے ہیں اور یہ وہی موقف ہے کہ جس پر مذہب بھی زور دیتا ہے۔ انسانیت کی تکمیل کا تقاضا بھی ہے اور معاشروں کے استحکام کا بھی یہی ذریعہ ہے۔
بے سکونی کا راج ہوتا ہے
جب کوئی ضابطہ نہیں ہوتا