زندگی میں کوئی آزمائش ایسی ہوتی ہے کہ جو تقدیر میں لکھی ہوتی ہے اور اس میں ایک بڑی حکمت عملی بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ حضرت امام حسینؓ پر کربلا کے میدان میں آنے والی آزمائش کے بارے میں حضرت جبرائیل علیہ اسلام نے اس وقت نبی پاک کو خبر دی تھی جب حضرت امام حسینؓ کلکاریاں مارتے ہنستے مسکراتے معصوم بچے تھے۔ بچپن کی محبت میں زیادہ ذکر نبی پاک سے محبت کا ذکر ہے۔ حضرت بی بی ام سلمیٰ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی پاک نے فرمایا کہ وہ کچھ دیر آرام کریں گے لہذا کمرے میں کچھ دیر کے لئے کسی کو نہ آنے دیا جائے مگر نواسہ رسول نے کچھ دیر بعد ہی حضور کے کمرے میں جانے پر اصرار کیا۔ حضور اکرم نے کچھ آوازیں سنیں تو فرمایا یہ پابندی حسینؓ کے لئے نہیں ہے اور نواسے کو اندر بلا کر سینے پر لٹا لیا لیکن کچھ دیر بعد ہی کمرے سے رونے کی آوازیں آنے لگیں اور یہ آواز نبی پاک کی تھی۔ بی بی ام سلمیٰ کمرے میں داخل ہوئیں تو حضور پاک کی مٹھی میں خاک کربلا تھی۔ انہوں نے فرمایا ابھی جبرائیل آئے تھے یعنی کہ آنے والے زمانوں میں امام حسینؓ کی قربانی کی اطلاع اور تیاری کا مژدہ سنایا جا چکا تھا۔ آپ نے مزید فرمایا کہ کبھی جب یہ مٹی لال رنگ کی ہو گئی تو سمجھ لینا کہ حسینؓ شہید ہو گئے ہیں۔ دراصل ایک آزمائش وہ ہوتی ہے جو اچانک آ جاتی ہے اور وہ سہنی پڑتی ہے مگر برسوں پہلے سے کسی آنے والی آزمائش یا امتحان کے بارے میں علم ہو اور پھر انہی مشکل راستوں کی طرف آمادگی اور ارادے کے ساتھ آگے بڑھنا بڑا دشوار ہو جایا کرتا ہے۔ وقت گزرتا چلا گیا جب حضرت امام حسینؓ کی آزمائش کا وقت قریب آیا تو ان دنوں بڑے مشکل حالات تھے کیونکہ چاروں طرف سازشوں کے انبار تھے۔ حضرت امام حسینؓ 8 ذوالحج کو مدینے سے نکلے اور پھر مکہ سے کربلا کی طرف چل پڑے اس وقت وہ احرام پہنے ہوئے تھے کیونکہ وہ حج کرنا چاہتے تھے مگر انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ انہیں حج کے دوران شہید کر دیا جائے گا۔ لہذا انہوں نے اپنے حج کو عمرہ میں بدلا اور سفر اختیار کر لیا۔ امام حسینؓ کے قافلے میں راستوں میں بھی لوگ شامل ہوتے گئے۔ ان زمانوں میں لوگ جنگوں میں مال غنیمت کے لئے بھی جمع ہوا کرتے تھے لیکن ساتھ چلنے والوں نے کڑے امتحان کی شدت کو محسوس کیا تو ٹولیوں میں بٹتے رہے اور قافلے سے نکلتے رہے حتیٰ کہ 76 کے قریب کا قافلہ میدان کربلا پہنچا جس میں ”حر“ آخری رات شامل ہو کر سرخرو ٹھہرا۔ حضرت امام حسینؓ دنیا کے واحد جرنیل ہیں جنہوں نے راستے میں بھی کہا کہ اگر کوئی لوٹ کر جانا چاہتا ہے تو واپس جا سکتا ہے اور پھر کربلا کے میدان میں ایک شام خیمے میں چراغ بھی بجھا دیا اور کہا آپ میں سے جو جانا چاہئے اس بجھے ہوئے چراغ اور جلنے کے وقفے میں چلا جائے۔ حضرت امام حسینؓ کی اعلیٰ ظرفی کی انتہا تھی کہ وہ یہاں تک آ کر بھی واپس چلے جانے والوں کے لئے بھی باعزت راستہ دے رہے تھے تاکہ کوئی کسی سے شرمندہ نہ ہو۔ کچھ دیر چراغ بجھا رہا لیکن جب چراغ جلایا گیا تو سارے ساتھی موجود تھے۔ میرا ایک شعر ہے کہ
گل کر کے بھی چراغ اکیلے نہ تھے حسینؓ
سارے ہی بن گئے تھے ارادہ حسینؓ کا
یہ سچ ہے کہ انسان کمزور پیدا نہیں ہوا کرتے بلکہ کمزور کر دئیے جاتے ہیں مگر پھر یہی کمزور انسان وقت کے فرعونوں‘ نمرودوں اور یزیدیوں سے ٹکرانے والے بھی ہوا کرتے ہیں۔ دو باتیں اہم ہیں ایک تو یہ قربانی آل نبی ہی ادا کر سکتے تھے اور دوسری بات یہ کہ اتنی عظیم قربانی اور بڑی آزمائش ایسی ہے کہ جو آنے والے وقتوں میں ہر مظلوم کو ڈھارس دے کر باطل قوتوں کے سامنے نبردآزما ہونے کا حوصلہ بھی دیتی ہے۔ آج ہماری ذاتی زندگی سے لے کر قومی و ملی اور پھر عالمی سطح پر پیدا کی گئی سازشوں اور وسائل و اقتدار کی ہوس میں یہ داستان سربستہ راز کھولتی چلی جاتی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں اس سے سبق حاصل کر کے راستہ تلاش کر لیا جاتا ہے۔
پاکستان میں اقتدار کی رسہ کشی نئی بات نہیں ہے مگر جان و مال کی قربانی بھی دینے کو کوئی تیار نہیں اور نہ ہی کسی آزمائش سے گزرنے کو کسی کا بھی دل چاہتا ہے ہر لیڈر اور حکمران پرآسائش انداز میں رہ کر اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتا ہے اور سارے منظرنامے میں اس ملک کی سلامتی و ترقی اور عوام کی خوشحالی کی بجائے مفاد پرستی کا کھیل چلتا رہتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے عظیم قربانی دے کر نبی پاک کا دین بچایا تھا مگر یہاں اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کی سلامتی کا خیال کئے بغیر اقتدار کی طلب برقرار رہتی ہے اور پھر ان میں سے کوئی ایسا نہیں کہ جو سیاست کا یہ انداز اختیار کرے کہ جس کو جانا ہے وہ چلا جائے بلکہ روپے پیسے کا لین دین شروع ہو جاتا ہے اور لالچ میں کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ رہ کر یہ توقع کرنا کہ وہ شخص کوئی بہتر کام کرے گا یہ خام خیالی ہی ہو جایا کرتی ہے۔ ہماری سیاست میں راتوں رات لوگوں کو اٹھوا کر غائب کرنا اور پھر تھیلوں کے تھیلے پیسے بھر بھر کر انہیں ساتھ ملانے کا مکروہ کھیل ہوتا رہتا ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ سامنے کوئی صاحب کردار لیڈر نہیں ہوتا بلکہ ایسا شخص ہوتا ہے جو کسی طورپر بھی اقتدار کو ہاتھ سے جانے پر راضی نہیں ہوتا اور بدقسمتی یہ بھی ہے کہ 71 میں اچھی خاصی فوج کی موجودگی میں بھی ہتھیار ڈال کر شکست تسلیم کر لی جاتی ہے اور ہندوستان کی قید میں جانا پڑتا ہے۔ موجودہ حالات میں جہاں لیڈروں کی کرپشن کھل کھلا کر سامنے آ گئی ہے وہاں اسحاق ڈار صاحب کو دیکھ لیں کہ وہ استعفیٰ دینے پر تیار نہیں ہو رہے ہیں‘ ملک میں انارکی پھیلا کر بھی اقتدار سے چمٹے رہنے کو ترجیح دی جا رہی ہے لیکن یہ خیال ان کو نہیں آتا کہ اس غریب ملک میں رہ کر اتنی امارت اختیار کرنا کہ عوام بھوکی مر رہی ہو تو یہ بات خدا تعالیٰ کو ناگوار بھی گزر سکتی ہے کیونکہ یہ اصل کے شہزادے اور شہزادیاں نہیں ہیں۔ یہ سارے سیاستدان اپنے اپنے خاندان کے پس منظر میں جھانک کر اپنے آبا¶ اجداد کو دیکھیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ انہیں ملک کی سلامتی سے بڑھ کر اپنے مفادات کی ہوس کیوں پڑ جاتی ہے؟ اور کردار سازی کی یہ کمی ایسے لوگوں کے نام تاریخ پر سنہرے حروف سے نہیں لکھے گی۔ ملک کی سیاست میں اگر قربانیوں کی داستان دیکھیں تو پھر پیپلز پارٹی والوں کے نام ہی نکلتی ہے اور حضرت زینب کے یزید میں خطبات کا انداز بے نظیر بھٹو کے ہاں ہی دکھائی دیتا ہے مگر اس پارٹی کی بدقسمتی کہ آگے چل کر بڑے لیڈروں جیسے کردار والے لوگ نہیں رہے مگر یہ سچ ہے کہ نواز شریف نے جس شاہانہ انداز سے اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کی ے وہ اس غریب ملک پر حکمرانی کا نہ تو انداز اختیار کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس قابل ہیں کہ انہیں شہزادے، شہزادیاں بنا کر سروں پر مسلط کیا جائے۔ لوگوں کو کربلا کی داستان کے سربستہ راز و نیاز سے کچھ سیکھنا چاہئے۔ سلام کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں
کڑے اندھیروں سے انسان کو نجات ملی
حسینؓ‘ ہست کو تجھ سے نئی حیات ملی
حسینؓ‘ تیسرے شہیدان تشنہ لب کے لئے
طواف کرتی ہوئی غمزدہ فرات ملی
یہ فخر میرے نبی کے ہی خاندان کا ہے
زبان خشک پہ شادابی صلوٰة ملی
کہاں ملی ہے بہتر سی داستان کوئی
مثال ایک ہی تجھ میں اے کائنات ملی
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024