سابق آمر پرویز مشرف کے سیاسی بندوبست کی ایک حقیقت اور سامنے آ گئی ہے 108NA منڈی بہائوالدین سے ایم این اے اعجاز احمد چودھری دو نمبر ڈگری کے حامل نکلے۔ ق لیگ کے تتر بتر ہونے کے بعد اعجاز چودھری نے مسلم لیگ (ن) کی چھتری تلے پناہ لی لیکن عدلیہ نے اسکی چور بازاری کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ بیچ سمندر جب کشتی لہروں میں گھر جاتی ہے تو جان بچانے کیلئے مسافر بہت ہاتھ پائوں مارتے ہیں۔گو اعجاز نے بھی آخری وقت میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرکے سٹے کے سہارے وقت گزارنے کی کوشش کی لیکن انکی بے مہار طاقت اور پیسے کی ریل پیل ممتاز تارڑ کے جذبہ مزاحمت کو کچل نہ سکی۔ 12اکتوبر 1999ء کے فوراً بعد جن سیاہ گھٹائوں نے ملکی سیاسی ذہنیت کو اپنے منحوس پروں میں سمیٹ لیا تھا پیپلز پارٹی کے ٹائی ٹینک کے ڈوبنے تک انکی سیاہی گہری ہوتی رہی۔ پی پی اور (ق) لیگ کے گٹھ جوڑ نے اسے مزید شہہ دی اور سیاسی یتیم انہی خطوط پر سوچتے رہے لیکن جمہوری ہوا چلنے پر سیاسی پرندوں کے گھونسلے اکھڑ گئے ہیں۔ 108NA کا قصہ یوں ہے کہ (ق) لیگ کے دور عروج میں اعجاز چودھری سیاست میں وارد ہوئے اور پیسے کی بنیاد پر سیاست میں آئے اور چھا گئے۔ انکی مقبولیت بام عروج تک پہنچ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مستقبل کے سارے موسم ماضی و حال ہی کی آب و ہوا سے پھوٹتے ہیں اعجاز چودھری کا ماضی اور حال پیسے سے بھرپور ہے لیکن یہ پیسہ انکے چہرے پر لگے دونمبری کے داغوں کو چھپا نہیں پایا۔ 2013ء کے الیکشن میں بھی ممتاز احمد تارڑ فاتح تھے لیکن انکی شرافت کے باعث انکی فتح چرا لی گئی۔ انکے سیاسی مخالفین بھی جانتے تھے کہ ممتاز کے غصے کی گھٹا بن برسے گزر جائیگی سو اس بنا پر انہوں نے انہیں عدالتی راہداریوں میں الجھائے رکھا۔ سیاسی کارکنوں کو دینے کیلئے ممتاز تارڑ کے پاس بہت کچھ ہے لیکن انہیں گٹھٹری کی گانٹھ کھولنے کی عادت نہیں۔ این اے 108 کے حقیقی سیاسی وارث کا فیصلہ تو 8 جون کو ہو گا لیکن زمینی حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ منڈی بہائوالدین شہر میں ممتاز تارڑ کی پوزیشن مستحکم ہے جبکہ تھانے اور کچہری کی سیاست سے کنارہ کشی کے باعث دیہات میں انکے حالات پتلے ہیں۔ اگر دیہات سے ممتاز جیتتے ہیں تو وہ صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) کی وجہ سے جیتیں گے۔ عوام الناس سے ملنے کا ان کا انداز ضلع بھر میں مشہور ہے کہ وہ بتکلف انگلیوں کے دو پورے ملاتے ہیں اور اسکے بعد ہاتھ صاف کرنا بھی فرض سمجھتے ہیں حالانکہ پرانے سیاستدان ہونے کی بنا پر انہیں سیاسی رموز و اوقاف سے واقف ہونا چاہئے کہ جب تک آپ کسی کو کھڑے ہو کر سینے سے نہیں لگائینگے وہ دل و جان آپ پر قربان نہیں کریگا۔ بقول ولایت جٹ میاں برادران نے دیوان مشتاق کو واپس جماعت میں لیکر ممتاز تارڑ کی پوزیشن کو مزید مستحکم کر دیا ہے۔ محترمہ فائزہ مشتاق خصوصی نشست کی مستحق تھیں کیونکہ انکے والد کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ محترمہ حمیدہ وحیدالدین نے جس انداز سے شہر میں ترقیاتی کام کروائے ہیں ممتاز تارڑ کیلئے وہ بھی ایک پلس پوائنٹ ہے۔ سید طارق یعقوب رضوی بڑے مثبت انداز سے پورے حلقے میں کمپین چلا رہے ہیں۔ سید محفوظ مشہدی بھی اپنے مریدین کے ہمراہ ممتاز کی جیت کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے ضلع بھر میں روشنیاں بانٹنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ناصر اقبال بوسال ظاہری طور پر ممتاز تارڑ کی کمپین چلا رہے ہیں انہوں نے اپنے کزن غلام حسین بوسال کیلئے ٹکٹ کی کافی کوشش کی لیکن میاں نواز شریف نے ممتاز کو ٹکٹ دیکر انکے ساتھ پرانی دوستی کا حق ادا کیا ہے۔ ناصر اقبال ٹکٹ نہ ملنے پر خفا تو ہیں لیکن وہ کسی کا کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں بھی نہیں اسی لئے سر نیواں کرکے لگے ہوئے ہیں۔ تارڑ برادری کے ووٹ تقسیم ہونگے کیونکہ پی ٹی آئی نے طارق تارڑ کو ٹکٹ دے رکھا ہے جبکہ پنڈی نورا گائوں سے نواز تارڑ بھی آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں اس لیے تارڑ برادری کا ووٹ بنیادی طور پر تقسیم ہو گا جس کا فائدہ پیپلز پارٹی کے امیدوار آصف بشیر بھاگٹ اور حمزہ ناصر اقبال کو ہو گا۔ تحریک انصاف کے امیدوار طارق تارڑ اصل میں تو پپلئے ہیں اور پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملنے کے باوجود پی ٹی آئی کے کارکنان انہیں اپنا امیدوار تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ کدھر شریف سے انصر بائی نے اس پر خوبصورت تبصرہ کیا ہے کہ ایک اوسط ذہن و فکر کا حامل شخص بھی جانتا ہے کہ آخر میں مٹی وہیں پہنچے گی جہاں کا خمیر ہو گا۔ سو گڑھی خدا بخش کے مقدر کا ستار جب جگمگائے گا تو یہ پنچھی پھر اڑان بھر لیں گے۔ پی ٹی آئی کے نااہل ہونیوالے ایم این اے اعجاز چودھری سٹیج پر تو طارق تارڑ کے ساتھ نظر آتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ طارق تارڑ کو ہروانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائینگے کیونکہ اگر آج طارق جیت جاتا ہے تو پھر آنیوالے الیکشن میں پی ٹی آئی اعجاز چودھری کے خاندان کو یہ ٹکٹ کبھی نہیں دیگی اسلئے ناصر بوسال کی طرح اعجاز چودھری بھی صرف پارٹی پالیسی کی تابعداری کرتے ہوئے طارق تارڑ کے ساتھ سٹیج پر جلوہ گر ہیں۔ مسلم لیگ (ق) نے نوجوان امیدوار حمزہ ناصر اقبال گجر کو ٹکٹ دیا ہے۔ انکے والد ناصر اقبال گجر اور دادا حاجی محمد اقبال گجر آف چیلیانوالہ دونوں سابق ایم این اے ہیں جبکہ انکے چچا جعفر اقبال مسلم لیگ (ن) کے سنیٹر ہیں۔ عشرت اشرف (ن) لیگ کی ایم این اے ہیں۔ زینب جعفر، ایم پی اے حمزہ گرچہ نوجوان ہے سیاسی حسب و نسب بھی رکھتے ہیں لیکن (ق) لیگ کے سر سے جب مشرف کی سرپرستی ختم ہوئی تو اسکے لوگ فصلی بٹیروں کی طرح اڑ گئے ہیں۔ حمزہ ناصر کا ان حالات میں (ق) لیگ کا ٹکٹ لینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جماعت اسلامی کے فاروق ساہی کو جماعت کا ووٹ ملے گا۔ سابق ایم پی اے طارق ساہی پی ٹی آئی میں آ گئے ہیں اسی بنا پربرادری کا ووٹ تقسیم ہو گا۔ راہ حق پارٹی کے امیدوار راجہ شہزاد صدیقی مذہبی پس منظر رکھتے ہیں۔ انکی جماعت کا ووٹ اس حلقے میں کافی ہے لہٰذا وہ خود جیت تو نہیں سکتے البتہ کسی کو ہرانے میں ان کا کردار فیصلہ کن ہو گا‘ عظمت کدھر تو اپنے طور پر ممتاز تارڑ کو جتوا چکے ہیں اور تیسرے نمبر پر حمزہ ناصر کی پیشگوئی کر رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آصف بشیر بھاگٹ جس انداز سے کمپین چلا رہے ہیں وہ کافی حوصلہ افزا ہے گرچہ نذر محمد گوندل، ذوالفقار گوندل، ندیم افضل چن، وسیم افضل چن حلقے میں آ کر ووٹ نہیں مانگ رہے البتہ انہیں انکی حمایت حاصل ہے اگر یہ چاروں رہنما حلقے میں آ کر ڈور ٹو ڈور آصف بھاگٹ کیلئے ووٹ مانگتے ہیں تو منڈی بہائوالدین میں پیپلز پارٹی ایک بار پھر زندہ ہو سکتی ہے لیکن 8 جون کو عوام فیصلہ کرینگے کہ انکا حقیقی نمائندہ کون ہے؟
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024