منظر نیا نہیں تھا مگر جذباتی اور بعض حوالوں سے منفرد تھا لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے چیف جسٹس خواجہ امتیاز احمد کے اعزاز میں الوداعی تقریب کا اہتمام تھا اور سٹیج پر جناب چیف جسٹس خواجہ امتیاز احمد کے ساتھ نامزد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جناب جسٹس منظور احمد ملک بھی جلوہ افروز تھے۔ ابھی چند دن پہلے لاہور ہائی کورٹ کے منتخب عہدیداران صدر پیر مسعود چشتی، نائب صدر محمد عرفان شیخ، سیکرٹری محمد حامد قیوم اور فنانس سیکرٹری سید اختر حسین شیرازی اس الوداعی تقریب کے میزبان تھے گویا نئی بار ٹیم اپنے ایک چیف جسٹس کو الوداع اور دوسرے کو خوش آمدید کہنے کے لئے موجود تھی۔ جناب چیف جسٹس خواجہ امتیاز احمد کے چہرے پر اطمینان اور خوشی کے رنگ ہم آہنگ تھے۔ ان کے دور میں لاہور ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں انصاف کی جلد اور سسٹم کے تحت فراہمی سمیت کئی اہم اقدامات کئے گئے بعض اقدامات کا ذکر تو نامزد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جناب جسٹس منظور احمد صاحب نے بھی کیا اور کہا کہ اس وقت مختلف موضوعات کے حوالے سے مقدمات کی تقسیم اور شنوائی سے تیزی سے فیصلے ہونے کا سہرا جناب چیف جسٹس خواجہ امتیاز احمد کو جاتا ہے جنہوں نے جناب جسٹس اعجاز الحسن اور جناب جسٹس منصور علی شاہ کی تجاویز کی روشنی میں کیس مینجمنٹ پلان بنایا اور پھر اس پر عمل بھی کروایا۔ جناب چیف جسٹس خواجہ امتیاز احمد نے اپنے خطاب میں بعض اصلاحات کا ذکر کیا مگر ان سے بھی زیادہ اہم بات یہ کی کہ ادارے اصل اہمیت کے حامل ہیں اور خاص طور پر عدلیہ کا ادارہ زندہ قومیں اپنے اداروں کا احترام کرتی ہیں اور وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جن کا نظام عدل درست ہو۔ انہوں نے بلاتخصیص سب کو دعوت دی کہ مل کر عدالتی سسٹم میں بہتری لانے کے لئے مزید اقدامات کریں کیونکہ عدالتوں اور انصاف کے اداروں کی وجہ سے ملک قائم ہے سچی بات یہ ہے کہ جانے والے اور آنے والے چیف جسٹس صاحبان نے اپنے اپنے انداز میں اس احساس کو نمایاں کیا کہ آج بھی سائلین کو فوری انصاف کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے۔ نامزد چیف جسٹس مسٹر جسٹس منظور احمد ملک نے چیف جسٹس خواجہ کی مہم کو آگے بڑھانے کے حوالے سے شاید اس بات کا تذکرہ کیا کہ زیر فیصلہ مقدمات کی فہرستیں بنا لی گئی ہیں اور بنچ اور بار باہمی معاونت سے مقدمات کو نمٹانے کے عمل کو اور تیز کریں گے۔ مقدمات کے جلد فیصلے اور انصاف کی فوری فراہمی کے لئے ایک بڑا کردار پاکستان بھر کی بار ایسوسی ایشنوں کو بھی ادا کرنا ہو گا اور اس کردار کا ایک نمایاں پہلو ان وکلاءکی حوصلہ شکنی ہے جو اپنی سطح پر سچ کی بجائے جھوٹ کو فروغ دیتے ہیں مقدمات کو جان بوجھ کر طول دینے کے لئے تاکہ فریق مخالف کو ذہنی اذیت پہنچے، کسی نہ کسی بہانے مقدمات لٹکائے رکھتے ہیں۔ یہ ایک منفی سوچ ہے جس سے جیب میں وقتی طور پر کچھ رقم آ جاتی ہے لیکن انصاف کا خون کرنے کے باعث ایسا کردار ادا کرنے والے کا نامہ اعمال سیاہ ہوتا چلا جاتا ہے بار عہدیداران اگر اپنی صفوں میں موجود ایسی کالی بھیڑوں کا محاسبہ کریں جو جھوٹے مقدمات دائرکرتی ہیں اور جھوٹے حلف نامے فاضل عدالتوں میں داخل کرتی ہیں تو عدالتوں پر بوجھ بھی کم ہو سکتا ہے اور عدالتی عمل میں شفافیت بھی آ سکتی ہے۔ سب سے اہم بات حلف نامے کی ہے جو پرسوٹ، رٹ، اپیل کا لازمی جزو ہوتا ہے۔ اگر بنچ اور بار مل کر کسی بھی دعوے، سوٹ، اپیل کی باضابطہ سماعت سے پہلے عملی طور پر فاضل جج کے سامنے قرآن پاک پر ہاتھ رکھوا کر حلف لینے کا آغاز کریں تو مجھے یقین ہے ایک تہائی سے زیادہ مقدمات باقاعدہ سماعت سے پہلے ختم ہو جائیں گے کیونکہ موجودہ رسمی حلف نامہ اور حلف کی روح کے مطابق عملی حلف نامہ میں بہت فرق ہے اور اس فرق کے باعث اس وقت جھوٹے حلف ناموں نے عدالتی سسٹم کو بوجھل بنا کر رکھ دیا ہے۔ کیا نئے فاضل چیف جسٹس اس گزارش پر غور فرما سکیں گے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024