پاکستان کی معیشت کسی بھی دور میں مستحکم نہیں رہی، اس کی وجہ رولنگ کلاس طبقے کی کرپشن، نمود و نمائش، وزیراعظم، وزراء اعلیٰ اور گورنرز کے صوابدیدی اختیارات کو بے دریغ سیاسی فوائد کے حصول کے لئے خرچ کرنا، ملکی درآمد ات پر انحصار زیادہ اور برآمدات میں غفلت، کوتاہی اور بے ایمانی کا عنصر، صنعت کار، سرمایہ دار، جاگیردار اور رولنگ کلاس طبقے کا ٹیکس نہ دینا، ٹیکس غریب عوام دیتے ہیں رولنگ کلاس طبقہ اپنی آسائیشوں پر خرچ کر دیتا ہے اور یہی رولنگ کلاس طبقہ کماتا پاکستان سے ہے اور جمع پاکستان سے باہر کرتا ہے، انڈسٹری بھی ملک میں لگانے کے بجائے غیر ممالک میں لگائی جاتی ہے، مسند ِاقتدار پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے عوام کو خزانہ خالی ہونے کی نوید دے دی جاتی ہے اور دوران ِاقتدار معیشت کے مضبوط ہونے اور ملک کی اقتصادی ترقی کے گیت گائے جاتے ہیں، ملک کو لوٹنے والے لندن اور سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں اپنے کھاتوں کو بھاری کر لیتے ہیں، رولنگ کلاس طبقے نے ملک میں ڈیموکریسی کے بجائے لوٹو کریسی قائم کر رکھی ہے، اداروں کو مفلوج کرکے قومی وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے، اپنی تمام لوٹی ہوئی دولت اور پھر لوٹی ہوئی دولت اور کاروبار غیر ممالک میں ہے، ان عوامل کے ہوتے ہوئے ملک کی معیشت کیا خاک بہتر ہوگی۔جون، 14 2017 ء کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹیو بورڈ نے آرٹیکل (4) کے تحت پاکستانی معیشت کے بارے میں نتیجہ اخذ کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں چینی سرمایہ کاری اور دیگر اقدامات کے سبب پاکستان کی اقتصادی ترقی خوش آئند ہے، تاہم ترقی کی راہ میں خطرات موجود ہیں، سی پیک کی سرمایہ کاری اور توانائی کی بہتر فراہمی اور بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار کی درمیانی مدت میں اضافے کی شرح جس کا اندازہ 5.3 فیصد لگایا گیا تھا، اس کے چھ فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے، ساتھ ہی رپورٹ میں کہا گیا کہ زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ رہاہے اور رواں مالی سال میں اس کے تین فیصد رہنے کا امکان ہے، جس کی مالیت نو ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے۔ یاد رہے کہ ملک میں پچھلے دو ہفتوں میں ملک کے زرِ مباد لہ کے ذخائر میں ڈیڑھ ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ سٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق 9جون تک ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر 15.3 ارب ڈالر تھے، آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں امید ظاہر کی کہ موجودہ مالی سال کے آخر تک پاکستان کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر ممکنہ طور پر 18.5 ارب ڈالر ہونے چاہیں، برآمدات کو بڑھائے بغیر ممکن نہیں کہ اگلے دو ہفتوں میں ان زرمبادلہ کے ذخائر کو 18.5 ارب ڈالر تک لے جایا جا سکے گا۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستان کی کرنسی کومستحکم رکھنے کی وجہ سے زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی آئی ہے، اگر حکومت برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کر پاتی تو اس صورت حال میں زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا پھر یہی ایک طریقہ ہے کہ یا تو حکومت مزید بیرونی امداد لے یا پھرقرضے لے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران سٹاک ایکسچینج مارکیٹ شدید دبائو کا شکار رہی، تین سو سے زائد کمپنیوں کے حصص میں غیر معمولی کمی ہوئی اور مجموعی مالیت تین کھرب 85 ارب 56 کروڑ روپے کی کمی ہوئی، جب کہ انڈیکس میں 2678 پوائنٹ کمی ہوئی، جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، سرمایہ کار پاکستان کے اندرونی حالات کو تشویش کا باعث قرار دیتے ہیں اور سیاسی تنائو کے سبب پانامہ کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کے آنے تک بڑی سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں۔
ملک میں لوڈ شیڈنگ کے اسباب اور اس کی اصل وجہ، پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او)، وزارتِ پانی و بجلی کی جانب سے ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے 200 ارب روپے کے خسارے سے دوچار ہے جبکہ پاور سیکڑ کے زیرِ گردش قرضوں، واجبات اور بقایا جات کی ادائیگی میں اضافہ ہوا ہے، ملک میں چالیس فیصد سے زائد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرنے والی ٹیکسٹائل کی صنعت کی زبوں حالی تو دیکھئے کہ دو سو سے زائد ملیں بند پڑی ہیں اور مزید روزانہ بند ہو رہی ہیں، حکومت کی عدم توجہ کے باعث اس زمرے میں تجارتی خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح تیس ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے، برآمدات میں مسلسل کمی انتہائی خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ 2012-11ء میں پاکستان کی برآمدات کا سالانہ حجم 12.4 ارب ڈالر تھا، ویت نام کا 16.7 ارب ڈالر، بنگلہ دیش کا 21.4 ارب ڈالر، انڈیا کا32 ارب ڈالر تھا۔ سال 2015-16ء کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو اس میں کمی واقع ہوئی، پاکستان کی برآمدات کا حجم 12.5 ارب ڈالر کی حد تک رہا، جبکہ ویت نام 28.4 ارب ڈالر کے اضافے پر پہنچ گیا۔ بنگلہ دیش کی برآمدات بھی بڑھ کر 31.8 ارب ڈالر ہوگئیں، انڈیا نے 36.9 ارب ڈالر کی حد عبور کی، ہم جہاں تھے وہیں رہے البتہ کرپشن اور مہنگائی میں اٖضافہ اچھا خاص ہوا، سیاست میں بد اخلاقی اور بد زبانی میں اضافہ ہوا، اداروں کی تذلیل اور انہیں برباد کرنے میں اضافہ ہوا، غریب عوام پر مہنگائی، ٹیکسوں کے بوجھ اور ذہنی کوفت میں اضافہ ہوا۔ ہاں اگر برآمدات کے علاوہ کمی آئی تو صرف عوام کی توقعات اور سیاسی اخلاقیات میں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38