86 سالہ زریں صحافت کا عہد تمام ہوا‘ پرسوں جناب مجید نظامی جہاں فانی کو الوداع کہہ گئے.... جمعة الوداع کی مبارک ساعتیں ‘ 26 ویں رمضان کی دل پزیرگھڑیاں اور شب قدر کے قابل رشک اور قیمتی لمحات میں ان کا سفر آخرت شروع ہوا‘ اﷲ پاک انہیں ابدی جہاں میں دائمی سکون اور اطمینان عطا کرے آمین‘ شب قدر کی انمول گھڑیوں میں جہاں عاشقان توحید و رسالت دعا¶ں کے زمزے بلند کر رہے تھے عین اسی مقبول ساعتوں میں مختلف چینلز نے جناب مجید نظامی کی رحلت کی خبر بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کی۔ اس کے بعد مختلف سماجی، عوامی تجارتی اور علم دوستوں کی طرف سے ایس ایم ایس کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا‘ پروفیسر ڈاکٹر عزیز احمد ہاشمی‘ محترمہ صائمہ بتول جعفری‘ محمد صدیق گجر‘ پروفیسر ڈاکٹر مقصود احمد جعفری‘ آسیہ ہاشمی‘ پروفیسر جمیل‘ بیگم وسیم ثناءاﷲ‘ ڈاکٹر فاروق ہاشمی‘ ڈاکٹر مرتضی مغل، اشفاق احمدقاضی، طلعت عباس خان اور کرنل (ر) سلطان ظہور اختر‘ محترمہ عابدہ طاہرہ عباسی‘ اسماعیل اشرف‘ ڈاکٹر ایم ڈی خان‘ صوفی انوار صدیق ‘ سحرش اشرف‘ نثار علی‘ آفتاب ضیائ‘ حافظ محمد علیم‘ تصدق اے راجہ‘ پروفیسر ڈاکثر ثمینہ امین‘ ڈاکٹر محمد ظریف‘ پروفیسر ابرار خان‘ پروفیسر نثار احمد چودھری اور سینیٹر جعفر اقبال چودھری سمیت سارا دن ٹیلی فون پر محبان پاکستان تعزیت کرتے رہے‘ یقیناً امام صحافت ‘ نظریہ پاکستان کے محافظ اور سالار صحافت کی جدائی کو ہر پاکستانی نے محسوس کیا اور ہر پاکستانی ان کی لازوال اور ناقابل فراموش خدمات کا معترف بھی رہا۔ اﷲ کریم انہیں غریق رحمت کرے‘ ہفتہ کی صبح جب معمول کے مطابق ہم آفس پہنچے تو چوکیدار‘ گیٹ کیپرز کو ملے انہیں افسردہ پایا وہ دیر تک ہم اپنے مربی جناب مجید نظامی کی باتیں کرتے رہیں ‘ ریسیپشن پر محمود صاحب‘ صوفی جاوید‘ عباس احمد‘ ساجد حسین ڈرائیور غمزدہ بیٹھے ہوئے تھے وہاں کارکنوں نے مرحوم کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کی۔ سب کارکن مجید نظامی سے ان ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے رہے جب کبھی وہ اسلام آباد آفس آیا کرتے تھے محمود صاحب گویا ہوئے میں نے کبھی انہیں غصہ میں نہیں دیکھا‘ صوفی جاوید کے الفاظ تھے کہ وہ نائب قاصد کو بھی احترام دیا کرتے تھے جب میگزین / نیوز رومز پہنچے تو وہاں بھی فضاءپر یاس و حسرت و سوگ کی رداءتنی ہوئی تھی.... میگزین ایڈیٹر زاہد حسن چغتائی‘ ضمیر محمد‘ فوزیہ ایوب اعوان‘صائمہ عمران‘ یاسر سیال‘ جناب افتخار شکیل سب کے سب مغموم تھے‘ زاہد حسن چغتائی صاحب دیر تک نظامی برادران کی وطن دوستی ‘ نظریہ پاکستان سے ان کی کمٹمنٹ اور ذمہ دارانہ صحافت کے روشن واقعات سناتے رہے‘ ان کی گفتگو میں کئی حوالہ ہم جیسے صحافت کے طالب علموں کے لئے نئے تھے۔ کارکن نوازی کے تناظر میں ان سے منسوب قصوں کو ہم نے بڑی محبت و شفقت سے سنا‘ نیوز روم‘ کمیپوٹر سیکشن ‘ میگزین ‘ سٹی ڈیسک ‘ سرکولیشن ‘ شعبہ ٹیلی فون اور یہاں تک آفس مسجد میں وقفہ وقفہ کے بعد مختصر سی دعائیہ مجلس ہوئی اور پھر کارکن ساتھی دیر تک مرشد صحافت کا تذکرہ کرتے رہے۔ نماز عصر سے ذرا قبل محترم جاوید صدیق لاہور میں جنازے و تدفین کے بعد سیدھے آفس پہنچے جہاں قمر صاحب نے دعائے مغفرت کرائی۔ کرنل سلطان ظہور اختر گولڈ میڈلسٹ کا کہنا تھا کہ مجید نظامی میرے بھائی میرے دوست تھے‘ ان کی جدائی کا صدمہ ناقابل برداشت ہے ہفتہ کا پورا دن ‘ ہر لمحہ‘ ہر ساعت 26 ویں رمضان“ لیلة القدر ‘ جناب مجید نظامی اور ان کی خوش بختیوں کا تذکرہ جمیل کرتے رہے۔ صدیق منظر‘ ناصر افضل‘ ندیم اقبال‘ عبدالستار ‘ رفیق مسیح ‘ چوہدری یعقوب اور قمر السلام غرض کوئی ایسا کارکن نہ تھا جس نے جدائی کا کرب محسوس نہیں کیا.... اﷲ کریم ہمارے مجید نظامی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے‘ کارکنوں کی گفتگو میں نظامی صاحب کی شفیق شخصیت کا سلسلہ نمایاں تھا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38