حکومت کی کشتی اور مریم اورنگزیب
حکومتوں کی کابینہ اس وقت تک قابل اعتماد اور قابل ذکر نہیں کہلاتی کہ جب تک کابینہ یا حکومت کا وزیر اطلاعات اس معیار کا نہ ہو کہ جو معیار کسی وزیر اطلاعات کے لئے آج کے جدید دور کا اولین تقاضہ ہے۔ میاں نواز شریف کی موجودہ حکومت کی بدقسمتی رہی کہ انہیں اپنی حکومت کے لئے کوئی مشاق چست و توانا وزیر اطلاعات ہی نہ مل سکا معزول وزیر اطلاعات پرویز رشید تو خیر اب قصہ پارینہ ہوئے مبادہ کہ جب تک لیکس کے حوالے سے کوئی ان سے منسلک ایشو کھل کر سامنے نہیں آجاتا۔ مگر ان کے بعد میاں نواز شریف نے شاید اپنی اس شعبے سے بے توجہی کی انتہا کردی جب انہوں نے خاتون مریم اورنگزیب کو وزیر مملکت برائے اطلاعات مقرر کیے جانے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ متذکرہ تناظر دلالت کرتا ہے کہ میاں صاحب کی موجودہ حکومت میں کرتا دھرتا عناصر ہی کوئی اور لوگ ہیں نہ کہ میاں نواز شریف بذات خود۔ یہ سب کچھ کہنے کی ضرورت یوں پڑی کہ تعیناتی سے لے کر اس حالیہ پریس کانفرنس تک کی ضرورت و افادیت کے دوران کی تمام کارکردگی کو اگر نظر انداز بھی کردیا جائے تو بھی یہ عمران خان کے بارے کی گئی کانفرنس وزیر مملکت اطلاعات مریم اورنگزیب کے فوکس باخبری استعداد کار کو ٹھوس مضبوط کے بجائے طفلانہ سر تک محدود ہونے پر بھرپور دلالت کرتی ہے یعنی پرویز رشید کے جانے کے بعد اطلاعات کے شعبے کو اب مریم اورنگزیب کے حوالے کردیے جانے کو آسمان سے گر ا کھجور میں اٹکا بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مریم اورنگزیب کو تو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ حکومتوں کا شعبہ اطلاعات ایک ایسا شعبہ ہوتا ہے کہ جس میں نہایت ہی ڈپلومیٹک طور پر اپنوں اور پرائیوں کو بیک وقت اس طرح ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے کہ کسی کو یہ شائبہ تک نہ ہونے دیا جائے کہ ان کا صرف حکومت سے تعلق کردار محدود ہے عمران خان کے بارے اک ایسی بے معنی پریس کانفرنس کرڈالی کہ جس نے ان کے خیال کے مطابق مقصد کے برعکس کام کردکھایا وہ بھی ایسے موقع پر جب خصوصا ً عمران خان تو بالکل بے بس اور تنہا رہ چکے تھے مگر مریم اورنگزیب کی صرف خصوصا ً عمران کے بارے اک ایسی پریس کانفرنس کہ جس میں کوئی رتی برابر بھی خاص بات نہیں تھی اس کی ہرگز کوئی ضرورت نہ تھی۔ حالانکہ مقابلتاً ملک کی سیاست میں اس وقت اتنے اندرونی اور بیرونی ایشوز اور چیلنجز موجود ہیں کہ جن کے بارے مریم اورنگزیب کو لمحہ بہ لمحہ باخبر رہنے اور قوم اور میڈیا کے ساتھ اپنے عہدے اور کردار کی مطابقت سے منسلک رہنے کی ضرورت ہے ، بہر طور مریم اورنگزیب کو یہ ہرگز اس موقع پر زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ پوری کی پوری پریس کانفرنس عمران خان کی دم توڑتی سیاست کے موقع پر کرکے اسے آکسیجن فراہم کرنے کا کام کرتیں۔ وزیر اطلاعات کا کام عوام کے ساتھ خوش دلانہ تعلقات قائم رکھنا قطع نظر عوام کی سیاسی وابستگیوں کے۔ گذشتہ پی پی پی کے پانچ سالہ دور اقتدار اور موجودہ پی ایم ایل این کے چار سالہ دور یعنی کل ملاکر نو برس کی حکومتوں میں اگر کوئی وزیر اطلاعات حقیقی ٹھوس وزیر اطلاعات کے کردار کے ساتھ سامنے آئے ہیں تو وہ ہیں پی پی پی کے قمر زمان کائرہ۔ نہایت افسوسناک امر ہے کہ ملک عزیز کی سیاسی قوتوں کو اقتدار میں آنے کے بعد حکومتوں کے ستون کا کام کرنے والے شعبہ اطلاعات سے منسلک کوئی دانا بینا، فری فیئر اور امپارشل وزیر اطلاعات ہی نہیں ملتا اور صورتحال اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ اتنی نادار حکومت نواز حکومت کو مریم اورنگ زیب کو وزیر مملکت برائے اطلاعات رکھنے کی نوبت کا سامنہ کرنا پڑتا ہے ؟