پرانے وقتوں کی بات ہے جہاں بادشاہ رہا کرتے وہ جگہ مشہور ہوجاتی۔ مشہوری صرف مشہوری نہیں ہوتی تھی بلکہ پورا پیکج ہوتا تھا جس میں اُس جگہ کی صفائی، پختہ راستے، نکاسی آب، گلی محلوں میں ترتیب، رات کو مشعلیں روشن کرنا اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی وغیرہ شامل ہوتے۔ یعنی وہ آبادی بادشاہ سلامت کی رہائش گاہ کے باعث خودبخود ہی فیض یاب ہوجاتی۔ پرانا وقت گیا، نیا وقت آیا۔ بادشاہت کی فصل کاٹ کر جمہوریت کی فصل اگائی جانے لگی۔ بادشاہی نظام کے برعکس جمہوریت میں صرف محل کے اِردگرد کی آبادی کوہی نہیں بلکہ پورے ملک کو یکساں ترقی دینے کا عہد کیا جانے لگا مگر بعض جمہوریتوں میں یکساں ترقی والا جمہوری نظریہ اب تک رائج نہ ہوسکا۔ وہاں شاہی محلات کی قریبی آبادیوں کو بنیادی انسانی سہولتیں تو ایک طرف، شاہی دور کی ’’بنیادی جانوری سہولتیں‘‘ بھی میسر نہ آسکیں۔ بدقسمتی دیکھئے کہ موجودہ دور کے جمہوری بادشاہوں کی رہائش گاہوں کے اِردگرد کی کچھ جگہیں بادشاہوں کے اصطبل سے بھی کم سہولت یافتہ ہونے کے باوجود ویسے ہی مشہور ہوچکی ہیں جیسے پہلے زمانے کے بادشاہوں کے اِردگرد کی جگہیں مشہور ہوتی تھیں۔ ایسی ہی ایک جگہ اسلام آباد کے دیہی علاقے میں ہے جس کا نام بنی گالہ ہے۔ کبھی یہ جگہ بہت حسین اور خوبصورت تھی۔ جیسے بادشاہ کسی بھی حسین اور خوبصورت لڑکی کو اپنے حرم کا حصہ بنالینا اپنا حق سمجھتے تھے ویسے ہی پاکستان کے جمہوری بادشاہوں نے راول جھیل کے قریب اِس وادی کے دلرباجسم کو جگہ جگہ سے نوچ کر اپنے عالیشان محل بنانے شروع کردیئے۔ غیرمہذب معاشروں میں قدرت کی حسین وادیاں اُس وقت تک ہی خوبصورت رہتی ہیں جب تک وہاں انسانوں کی آمدورفت شروع نہ ہو۔ ملک کا شاید ہی کوئی سابقہ یا حالیہ بڑا سیاست دان، بیوروکریٹ یا کاروباری ہوگا جس نے بنی گالہ میں کئی کئی کنال پر اپنی آرامگاہ نہ بنائی ہو۔ بڑے بڑے رقبوں پر اونچے نیچے یہ سب عالیشان گھر ایسے ہیں جن میں فلم ڈائریکٹرز پرانے وکٹوریہ بادشاہوں کے محلات کی فلمیں شوٹ کرسکتے ہیں۔ اگر ورلڈ بینک اِن محلات کو دیکھ لے تو وہ پاکستان کو قرضہ دینے کی بجائے پاکستان سے قرضہ لینے کی درخواست کردے مگر بنی گالہ کے مشہور ہونے کی صرف یہ وجہ نہیں ہے۔ اسکی مشہوری کی بڑی وجہ بنی گالہ کی سب سے اونچی پہاڑی پربنا عمران خان کا گھر ہے۔ سینکڑوں کنال پر پھیلے ہوئے گھر کی اس جگہ کا انتخاب عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ خان نے کیا تھا۔ اسی گھر کی وجہ سے بنی گالہ کا نام ملکی اور بین الاقوامی میڈیا پر چھایا رہتا ہے۔ دوردراز کے باسیوں کوتو چھوڑیئے، اکثر اسلام آباد شہر میں رہنے والوں کے نزدیک بھی بنی گالہ پریوں کا دیس ہے جہاں ہرطرف پھول کھلتے ہیں، پرندے چہچہاتے ہیں، شفاف پانی گنگناتا ہوا جھرنوں سے گرتا ہے، سڑکیں ایسی کہ میلوں ننگے پائوں چلیں مگر پائوں کومٹی کا ذرہ نہ لگے، آلودگی سے پاک ایسی آکسیجن جسے امریکہ لیبارٹری میں بھی تیار نہ کرسکے، سیوریج کاوہ نظام جس سے سویڈن بھی شرمائے، پینے کا ایسا صحت افزاء پانی جو فرانس کے منرل واٹر کو بھی مات دے لیکن اگر چلتے چلتے یونہی کوئی غلطی سے بنی گالہ آجاتا تو اُسے دونوں اطراف کی شاندار عمارتوں اور قطاردر قطار لمبے تڑنگے پلازوں کے درمیان غلیظ پانی سے دلدلی تیس فٹ چوڑی نالی ملتی۔ یہ بنی گالہ کے آغاز میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے گھر کی سڑک سے شروع ہوتی اور عمران خان کے پہاڑی والے گھر تک پہنچ کر ختم ہوتی جسکی لمبائی تقریباً پانچ کلومیٹر بنتی ہے۔ آپ حیران ہونگے کہ بنی گالہ میں تیس فٹ چوڑی اور پانچ کلومیٹر لمبی اِس غلیظ نالی کا کیا کام؟ آپ شاید اس سے بھی زیادہ حیران ہوں جب یہ معلوم ہوکہ جسے غلیظ دلدلی نالی کہا جارہا ہے وہ بنی گالہ کی مین سڑک ہے۔ یہ سڑک اور بنی گالہ کی دوسری سڑکیں دیکھ کر انقلابِ فرانس سے پہلے کا فرانس یاد آتا ہے جب وہاں کی تنگ وتاریک اور گندی گلیوں میں انسانی اور جانوری جسم ایک ساتھ پھرا کرتے تھے۔ یہاں ہرگھر نے بور کرکے پینے کے پانی کا انتظام کررکھا ہے۔ کتابی علم کیمطابق زمین سے نکالا گیا پانی منرلز کے باعث صحت افزاء ہوتا ہے لیکن ڈرائونے خواب کی طرح یہ بھی سن لیجئے کہ بنی گالہ میں سیوریج کا کوئی نظام نہیں ہے۔ ہرگھر نے اپنے سیوریج کیلئے زمین میں کنواں کھود رکھا ہے۔ یعنی جس زمین سے پینے کا پانی نکالا جارہا ہے اُسی زمین میں تمام گھروں کا سیوریج جذب ہورہا ہے۔ مین سڑک کے اِردگرد کے رہائشی رات کو اپنے سیوریج کی تمام غلاظت مین سڑک پرچھوڑ دیتے ہیں۔ یہ سڑک 1960ء میں بنی تھی اس لئے اب اس کی نشانی اسلام آباد ضلع کی دیہی کونسل کے ریکارڈ میں بھی نہیں ملے گی۔ برسوں تک بارشوں اور گندے پانی کے مکسچر کے باعث یہ سڑک غلیظ دلدلی نالی کا مستقل نمونہ بن گئی۔ تاریک گلی محلوں میں رات کو اتنا اندھیرا ہوتا ہے کہ کتے بھی سونگھ کر اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں اور چمگادڑیں صبح ہونے کا انتظار کرتی ہیں کہ کچھ دکھائی دے سکے۔ بادشاہوں کے اِردگرد کی اِس آبادی میں باقاعدہ سرکاری بجلی میسر نہیں ہے۔ ہرگھر خواہ وہ چند مرلے کا ہویا سینکڑوں کنال کا، اُسے اپنا علیحدہ ٹرانسفارمر اور کھمبالگوانا پڑتا ہے۔ واپڈا کی اِس بے نیازی سے بنی گالہ ٹرانسفارمروں اور کھمبوں کا جنگل بن چکا ہے۔ عمران خان نے نیا پاکستان بنانے تک بنی گالہ کو پرانے پاکستان کے حال پرچھوڑ دیا ہے۔ کورنگ نالے پر پُل کی تعمیر ابھی بھی کسی سیاسی افتتاح کی منتظر ہے۔ اسی مظلوم بنی گالہ میں ایس ایم جنید، چوہدری محمد حسین، حاجی اسلم خان، راجہ برخوردار، نشاط رفیع ، فرید خان،محمد ظہیر اورسید عدنان شبیر جیسے چند حوصلہ مند لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ’’ثواب‘‘ فلاحی تنظیمــ شروع کررکھی ہے۔ حال ہی میں بنی گالہ کی غلیظ دلدلی نالی نما مین سڑک کی جگہ سیمنٹ کی سڑک بنائی گئی ہے۔ نکاسی آب کا انتظام نہ ہونے کے باعث سیمنٹ کی اس سڑک کیلئے ساون کے موسم ناقابل برداشت ہوسکتے ہیں۔ سیمنٹ کی سڑک جدید سڑکوں کی ابتدائی صورت تھی جس کا آغاز اٹھارہویں صدی میں ہوا۔ سڑکوں کی تعمیر کی یہ ابتدائی صورت اب متروک ہوچکی ہے یا انتہائی پسماندہ علاقوں کیلئے مخصوص کردی گئی ہے۔ تاہم بنی گالہ والے پھر بھی خوش ہیں کہ بنی گالہ قدیم زمانے سے ترقی کرکے اٹھارویں صدی میں داخل ہوگیا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024