میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بددیانتی کے بھی درجات ہوتے ہیں یعنی کہ کوئی چھوٹے درجے کی بددیانتی پر فائز ہوتا ہے اور کوئی بہت بڑا بددیانت ہوتا ہے۔ بددیانتی کی یہ درجہ بندی عام عوام سے حکمرانوں‘ لیڈروں سیاستدانوں اور پھر عالمی سطح کی سیاست کے میدان کے کھلاڑیوں تک چلی جاتی ہے۔ مگر اس سارے مسئلے میں کوئی بھی خود کو بددیانت تسلیم نہیں کرتا ‘ لہذا حقائق کا مطالعہ کر کے عقلی اور شعوری سطح پر جانچ پڑتال کرنا پڑتی ہے۔ بھارت کے رویے اور ہندو لیڈروں کی چالبازیوں کا سلسلہ اس وقت سے آج تک جاری ہے جب متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں نے اپنے لئے ایک الگ ملک کی ضرورت کو محسوس کیا تھا۔ کچھ دن قبل بھارتی سیکرٹری جے شنکر نے پاکستان کے سیکرٹری اعزاز چودھری سے کلبھوشن تک قونصلر رسائی کی خواہش ظاہر کی تھی مگر یہ خواہش کس منہ سے کی تھی اور یہ خواہش کرتے ہوئے انہیں یہ احساس تک نہ ہوا کہ جن سے اس خواہش کا اظہار کر رہے ہیں ان کا چھوڑا ہوا جاسوس اس ملک کی سلامتی کے درپے تھا۔ ممتاز شاعر مرتضیٰ برلاس کی ایک بڑی خوبصورت غزل ہے جسکے کچھ اشعار یوں ہیں کہ …؎
باتوں کی تری رمز کوئی اور نہ سمجھا
محفل میں مگر ہم تن تنہا تجھے سمجھے
ہم تیرے رویے کی شکایت نہیں کرتے
بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ اﷲ تجھے سمجھے
بھارتی سیکرٹری جے شنکر کلبھوشن تک رسائی حاصل کرنے کی خواہش میں بددیانتی کے کس درجے پر تھے یہ تو معلوم نہیںمگر یہ حقیقت موجود ہے کہ مولانا محمد علی جوہر ایک انگریز ریمزے میکڈانلڈ کو اسکی ہندو نوازی کی وجہ سے ’’رام جی میکڈانلڈ‘‘ کہا کرتے تھے۔ ریمزے ہندوؤں کا حامی اور گاندھی کا عقیدت مند تھا۔ ان دنوں گاندھی جی کا فلسفہ تھا کہ اکثریت یعنی ہندوؤں اور اقلیت یعنی مسلمانوں کے مابین اختلافات بیرونی راج کی بدولت ہیں۔ ادھر آزادی کا سورج چمکے گا ادھر فرقہ وارانہ اختلافات ختم ہو جائینگے۔ یعنی اس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ جب دائمی ہندو اکثریت دائمی مسلم اقلیت پر غالب آکر اسے دبا لے گی اور ہندوئیت کی جانب آجائیگی تو سارا مسئلہ خودبخود حل ہو جائیگا۔ مگر گاندھی جی کے اس خیال میں مسلمانوں کیلئے اس درجہ بددیانتی شامل تھی کہ مولانا محمد علی جوہر سے ’’رام جی میکڈونلڈ‘‘ کا خطاب حاصل کرنیوالا انگریز بھی ایک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں یہ بول اٹھا تھا کہ ’’گاندھی جی! خواہ آپ جتنی بھی آنکھیں بند کر لیں آپ کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ ہندو مسلم ایک سوال ہے جو حل طلب ہے اور آپ اس حقیقت کا دیانتداری کیساتھ سامنا کریں‘‘ مگر گاندھی جی بھی گاندھی جی تھے تادم آخر نہیں مانے کہ مسلمان الگ قوم ہیں اور انکے جداگانہ حقوق ہیں۔ اس زمانے میں ہندو لیڈر یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کہ کوئی ہندو مسلم کا مسئلہ موجود ہے ‘ بالکل اسی طرح آج بھارت والے کشمیر کے مسئلے کو مسئلہ ماننے پر تیار نہیں ہیں مگر جس طرح گاندھی جی کی ضد اور ہٹ دھرمی کے باوجود پاکستان بن کر رہا ہے بالکل اسی طرح نہرو کی سازشوں اور شیخ عبداﷲ کی نظریاتی لغزشوں کی وجہ سے جس طرح کشمیر کی آزادی کو نقصان پہنچا مگر اسکے باوجود ایک دن یہ مسئلہ حل ہو کر رہے گا مگر ا اس کیلئے پاکستان میں بھی قائد اعظم محمد علی جناح جیسی سوچ اور کردار والے لیڈر کی ضرورت ہے جنہوں نے پورے ہندوستان میں بکھری ہوئی مسلمانوں کی اقلیت کو یکجا کر لیا تھا ورنہ پھر مسلمان بھی جان و مال کی عظیم قربانیاں دینے پر آمادہ بھی ہوئے اور پھر قربانیاں پیش بھی کیں۔آج کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے بھی کشمیری عوام کی نظریاتی پختگی کی ضرورت ہے ورنہ وہی ہو گا کہ جیسا گاندھی جی اس وقت جانتے تھے کہ آہستہ آہستہ ’’ہندو ازم‘‘ اتنا چھا جائیگا کہ مسلمان اپنی شناخت اور پہچان فراموش کر دینگے۔ گاندھی جی کی طرح نہرو کا بھی یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ میں نے خوردبین لگا کر بھی دیکھا ہے مجھے تو ہندو مسلم کوئی مسئلہ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ آج بھارت کے مودی سرکار اور ان سے پہلے آنیوالے حکمرانوں کا یہی عالم ہے کہ انہیں کشمیر کا مسئلہ تو دکھائی ہی نہیں دیتا لیکن پاکستان کی حکومت اور عوام کو کشمیر کا مسئلہ بھی دکھائی دیتا ہے اور پھر ملک میں را کی سرگرمیاں بھی نظر آتی ہیں۔ کلبھوشن کی کالی زبان سے یہ بات نکلی تھی کہ وہ بلوچستان میں بدنیتی اور بددیانتی کی وجہ سے موجود تھا اور اس اعتراف کے بعد صورتحال یہ ہے کہ نہ تو بھارت دباؤ میں ہے اور نہ ہی عالمی میڈیا پر اتنا شور و شرابہ ہوا ہے جتنا کہ خدانخواستہ پاکستان کا کوئی شخص ہوتا تو مچا دیا جاتا۔ لہذا اس صورتحال کا مقابلہ صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی حکومت مضبوط موقف اختیار کرے۔ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے آجکل اشتہار چل رہا ہے کہ پانامہ لیکس کی خبروں میں ان کا نام غلطی سے دیا گیا تھا۔ یہ غلطی بھی تھی تو اسکے اثرات دور ہونے آسان نہیں۔ بھارت کیساتھ کاروباری سوچ رکھنے کی وجہ سے دوستی کرنے میں محترم وزیراعظم کئی مرتبہ اس طرح آگے بڑھ جاتے تھے کہ ملکی مفادات پیچھے رہ جاتے تھے ‘ لیکن حکومت ملکی سلامتی کے مسئلے پر یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوا کرتی کہ غلطی ہو گئی اور نہ ہی اسکے اشتہارات دیکر غلطی کے داغ دھوئے جا سکتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف جس صورتحال کا شکار ہوئے ہیں ‘ اسے اپنے لئے بھارت نوازی کی سزا سمجھیں کیونکہ اس ملک کی سلامتی اور کشمیر کے مسلمانوں کیساتھ ظلم روا رکھنے والا بھارت مسئلوں کو حل کئے بغیر دوست نہیں ہو سکتا اور اگر اسے دیگر معاملات کی وجہ سے دوست بنایا بھی جائے تو وہ بددیانتی دوست تو ہو سکتا ہے مگر مخلص دوست نہیں ہو سکتا اور یہ بات اگر پاکستانی عوام کو معلوم ہے تو حکومت پاکستان کو بھی معلوم ہونا چاہئے کیونکہ بھارت معاملے میں خوش فہم ہونا خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ بھارت کی بددیانتی آخری درجے تک ہے۔ مرتضیٰ برلاس کی غزل کے باقی اشعار ہیں …؎
خوش فہم تھے اتنے کہ فرشتہ تجھے سمجھے
ویسا نہیں پایا تجھے جیسا تجھے سمجھے
یہ بھی نہیں سوچا کہ یہاں کون کسی کا
اپنی تھی یہی بھول کہ اپنا تجھے سمجھے
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024