ملکوں اور قوموں کی سماجی ترقی میں تعلیم نے ہمیشہ بنیادی کردار ادا کیا ہے کیوں کہ تعلیم جینے کا شعور اور سلیقہ عطا کرتی ہے۔ تعلیم کے ساتھ تہذیبی ترقی منسلک ہے۔ پاکستان بھی اپنے آغاز سے ترقی کے خواب دیکھ رہا تھا اور اس حوالے سے سیاسی دعوے بھی بہت کئے جاتے رہے لیکن حالات بدل نہ سکے بلکہ بدتر ہوتے گئے۔ شاید نظامِ تعلیم میں خامیاں تھیں یا جمہوریت اور آمریت اپنے اپنے مخصوص نظریات کی آبیاری کے لئے تعلیم کو استعمال کرتے رہے۔ کسی بھی سیاسی حکومت مطلب جمہوری حکومت کے ٹک کر کام نہ کر سکنے کی وجہ سے بھی پالیسی کا تسلسل برقرار نہ رکھا جا سکا ہاں مختلف ادوار میں مختلف ملکوں کے نظام تعلیم سے متاثر ہو کر تجربات کرنے پر زوررہا مگر سرکاری سکولوں کی حالت بہتر نہ ہوسکی جس میں حکومت کی عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ اُن اساتذہ کا بھی بھرپور کردار تھا جنہوں نے اپنے پرائیویٹ ادارے بنا رکھے تھے اور سرکاری سکولوں پرتوجہ دینے کی بجائے اس کے معیار کو گرانے میںمصروفِ عمل تھے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سرکاری سکولوں کی حالات بہت سنگین ہو چکی تھی اور اس کی بہتری کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت تھی کیوں کہ خواندگی کی مجموعی شرح پر پنجاب کی شرح خاصی اثر انداز ہوئی ہے اس لئے خادمِ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے اپنی ٹیم میں سے رانا مشہود احمد خان کا انتخاب کیا جن کا تعلق شعبہ ءوکالت سے تھا اور سابقہ دور میں وہ ڈپٹی سپیکر کے فرائض انجام دے چکے تھے۔ رانا مشہود احمد کی خوش قسمتی کہ اُنھوں نے اُس گھر میں آنکھ کھولی جو وکالت اور سیاست میں اےک منفرد مقام رکھتا تھا۔چونکہ سائنس ےہ بات ثابت کر چکی ہے کہ ہر انسان کی شخصیت میں اُس کے جینز بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ،رانا مشہود احمد خان کے والد محترم لاہور ہائیکورٹ بار میں بطور سیکرٹری پنجاب بار ایسوسی ایشن میں بطور وائس چیئرمین اور پاکستان بار کونسل میں بطور ممبر خدمات سر انجام دے چکے ہیں جب کہ ان کے دادا رانا عنایت خان ریاست کپورتھلہ کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر تھے۔ رانا مشہود احمد خان نے بھی وکالت میں ڈگری حاصل کی اور لاہور ہائیکورٹ کی تاریخ کے سب سے کم عمر سیکرٹری منتخب ہوئے۔ یوں بچپن سے انھوں نے قانونی اور سیاسی ماحول میں تربیت حاصل کی۔ کچھ چیزیں شعوری طور پر سیکھیں اور کچھ لا شعوری طور پر ان کی شخصیت کا حصہ بنیں۔ جب وہ سیاست میں آئے تو زمانے نے ایک انتہائی سلجھے ہوئے انسان کو دیکھا جس کی ماتھے پر بَل پڑنا تو دور کی بات ہے شاید غُصہ بھی نہ آتا ہو۔
ایک چیلنج سمجھ کر سکول ایجوکیشن کی وزارت کو قبول کیا اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ےہ ثابت کیا کہ خادمِ پنجاب کا انتخاب بالکل درست ہے۔ پنجاب بھر میں بہت سے سکول ایسے تھے جہاں پر مقامی وڈیروں نے قبضہ کرکے وہاں اپنے ڈیرے بنا رکھے تھے اور بعض سکول تو صرف کاغذات پر ہی موجود تھے۔بہت سی جگہوں پر سکول کی عمارت موجود تھی لیکن اساتذہ کی کمی کی وجہ سے سکول بند پڑے تھے اور بعض علاقوں میں تو استاد پورا پورا سال گھربیٹھ کے تنخواہ لے رہے تھے،جعلی ڈگریوں والوں کی بھی کثیر تعداد تھی۔ گویا ےہ کوئی آسان ہدف نہ تھا، آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا جسے درست کرنے کی ضرورت تھی۔ رانا مشہود احمد خان نیک نیتی اور مسلسل محنت سے دنیا کے سب سے بڑے سکول سسٹم میں بے مثال بہتری لا چکے ہیں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ آنے والے سالوں میں کچھ اور انقلابی تبدیلیاں نظر آئیں گی اور پورے ملک میں ایک نظامِ تعلیم رائج کرنے میں بھی رانا صاحب بنیادی کردار ادا کریں گے۔ پاکستان میں اس وقت چوون ہزار کے قریب سرکاری سکول ہیں جن کے بارے میں تمام معلومات انٹرنیٹ پر حکومت پنجاب کی ویب سائٹ ”اوپن ڈیٹا پنجاب“ پر جاکر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ سرکاری سکولوں کے موجودہ نتائج ان کی محنت اور خادمِ پنجاب کے وژن کی کامیابی ہے۔
تعلیم پر جو کام ہو رہا ہے اُس سے سب مطمئن ہیں مگر تربیت میں کافی بڑا شگاف پڑ گیا ہے۔ چھوٹوں، بڑوں کی تمیز ختم کرنے، خود انصاف کرنے، خود کو سب سے عقلمند سمجھنے کا رواج زور پکڑتا جا رہا ہے اور اس کا تمام تر کریڈٹ ایک دم وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھنے والی شخصیات کو جاتا ہے۔ وہ زبان جو آج کل کے گرے پڑے تھیٹرز میں بھی بولی نہیں جاتی وہ سیاست دانوں کی بدولت نئی نسل کی پہچان بنتی جا رہی ہے۔ اپنے فائدے اور اختیار کے لئے ایک پوری قوم اور نسل کو برباد کرنے والوں کو اس بات کا احساس دلانے کی اشد ضرورت ہے کہ ”جس کا بلّا اس کی بھینس“ کا سبق پڑھا کر وہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتے جا رہے ہیں جو کل ان کے لئے بھی وبالِ جان بن سکتا ہے۔ ایسی صورت میں والدین اور اساتذہ بھی مکمل طور پر بچوں کی کردار سازی کرنے سے قاصر ہیں کیوں کہ سوشل میڈیا کی صورت ان کا رابطہ ایک ایسی دنیا سے جڑ چکا ہے جہاں ہر شے کا سٹال ہے۔ یہاں وہ اپنی عمر، ناتجربہ کاری اور جذباتی پن کی وجہ سے ایسی سرگرمیوں کا حصہ بن جاتے ہیں جو ان کے مستقبل اور حال کے لئے قطعاً مفید نہیں اس لئے ضروری ہے کہ تربیت کا مضمون نصاب میں شامل کیا جائے۔ طلباءکے ذہنوں میں اخلاقی اور انسانی قدروں کے بیج بوئے جائیں تا کہ کل ان کی گفتگو میں انسانیت کی خوشبو محسوس ہو اور ان کی آنکھوں میں زندگی کے مثبت رنگ منعکس ہوں۔ یہی لوگ اور ان کا عمل پاکستان کا تعارف بنانے میں معاون ہو گا۔ امید ہے رانا صاحب اس کا بھی کوئی حل تجویز کریں گے۔