چند دن پہلے بازار میں شاپنگ کرتے میری نظر ایک خاتون پر پڑی اور میں انھیں غور سے دیکھنے لگی غور سے دیکھنے کی وجہ ان کا قیمتی اور خوبصورت عربی برقعہ تھا۔ ابھی میں اس کو دیکھ ہی رہی تھی کہ وہ پاس آئی اور بڑی محبت سے سلام کیا۔ میرے لئے وہ اجنبی تھی۔ مگر پڑھی لکھی اور اچھے گھرانے کی معلوم ہوتی تھی۔ اس نے بڑی رازداری اور آہستگی سے مجھے بتایا کہ وہ ضرورت مند ہے مگر مجبور ہے۔ اور میں اس کی مدد کروں۔ میرا دل پسیج گیا اور میں نے اس کی ضرورت پوری کر دی۔ اور سوچنے لگی کہ کتنی مجبور ہوں گی یہ باپردہ خاتون کہ جو یہ قدم انھوں نے اٹھایا۔ مگر یہ حیرت تب ختم ہو گئی جب میری ملاقات ایسی برقعہ پوش خواتین سے ہر چوک،گلی اور محلے میں ہونے لگی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو عوام کو بے وقوف بنانے کا طریقہ ہے۔ اسی طرح ایک دن بس میں سفر کے دوران ایک خوش لباس خاتون بس میں سوار ہوتے ساتھ چلانے لگیں کہ خدارا میری مدد کریں میرے پاس دوا کے پیسے نہیں صرف ایک سو کی بات ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سو روپے سے زیادہ پیسے جمع کر لئے نیچے اتری اور اگلی بس پر سوار ہو گئی۔ اسی راستے سے واپسی پر وہی خاتون دوبارہ بس میں سوار ہوئیں اور یہی عمل دوہرایا۔ فرض کریں وہ دن میں دس بسوں پر سوار ہوتی ہے جو کہ کم از کم تعداد ہے جانے شام تک کتنی بسوں میں سوار ہوتی ہو گی۔ ہر بس سے ڈیڑھ سو بٹورتی ہے تو شام تک وہ پندرہ سو ضرور کما لیتی ہو گی۔ اس طرح اس کی ماہانہ آمدن 50 ہزار کے لگ بھگ بنتی ہے جو کی 17 سکیل کے کسی بھی پڑھے لکھے سرکاری ملازم کی تنخواہ کے برابر ہے۔ بھیک مانگنے والوں کے پورے پورے خاندان اس کام میں مصروف ہیں۔ اگر گھر کا ایک فرد اتنا کماتا ہے تو پورے خاندان کی آمدن کا اندازہ لگائیں۔ ان کے گھر کے اخراجات نہیں ہوتے۔ بجلی پانی کا بل ادا نہیں کرنا پڑتا۔ بچوں کی تعلیم کے اخراجات نہیں اٹھانے پڑتے۔ کھانا بھی بھیک میں لے لیتے ہیں۔ انکی اس آمدن پر ٹیکس بھی نہیں لگتا۔ اس طرح ان بھیکاریوں کی پانچوں گھی میں ہوتی ہیں۔ بھیک مانگنا ہمارا قومی شعار بنتا جا رہا ہے۔ حکومت سے لے کر نچلے طبقے تک ہم اپنی خوداری اورعزت نفس گنوا چکے ہیں۔ ہم کاسہ لئے گلیوں میں پھریں یا ملک ملک گھومیں یہ ہماری پہچان بن چکی ہے۔ ہم محنت اور حق حلال کی کمائی سے فرار حاصل کرنے والی سہل پسند قوم بنتے جا رہے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والیاں اور مزدور طبقہ اس پیشہ کو اختیار کر رہا ہے اور تیزی سے اس کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس کی وجہ غربت بے روزگاری ، شعور اور تعلیم کی کمی ہے۔ بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ملک کی معیشت کو تباہ کر دیتا ہے۔ بے بہا وسائل اور افرادی قوت کے باوجود جب معاشرے میں کام کرنے والے کم اور بھیک مانگنے والے زیادہ ہوں تو یہ معاشی ترقی کی کمر آسانی سے توڑ سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھیکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد لمحہ فکریہ ہے۔حکومت کو چاہیے کہ انکی بڑھتی ہوئی تعداد کا نوٹس لے۔کیوںکہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اسلام میں بھیک مانگنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ بھیک مانگنے والا قیامت کے دن معزز نہیں ہو گا اور اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہو گا۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا کمانے والا اللہ کا دوست ہے۔ محنت اور رزق حلال کی بڑی فضیلتیں اور برکتیں ہیں جن کو چند لفظوں میں سمیٹنا نا ممکن ہے۔اب ضروت اس امر کی ہے کہ حکومت بھیک مانگنے کو جرم قرار دے۔ اس کے لئے مکمل قانون سازی کرے۔ ایک الگ محکمہ تشکیل دے جو کہ اس ناسور سے نبرد آزما ہونے کے لئے مختلف مرحلوں میں کام کرے۔ سب سے پہلے بھیک مافیا کو ختم کیا جائے اور اس کے پیچھے بڑے ہاتھوں کو بے نقاب کیا جائے۔ بھیک مانگنے والوں کے بھیس میں کئی ملک دشمن عناصر بھی جاسوسی کرتے ہیں اور بڑی چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی ایسے بھکاری نما ڈکیت شامل ہوتے ہیں۔ان کو پکڑا جائے۔ یہ محکمہ ایسے ادارے بنائے جہاں ان بھیک مانگنے والوں کے اندربھیک کے خلاف شعور بیدار کیا جائے۔ انھیں ٹرینگ دی جائے، سڑکوں سے اٹھا کر معاشرے کا مفید شہری بننے میں مدد فراہم کی جائے انھیں ہنر سکھائے جائیں۔ انکے بچے حکومت کی طرف سے پابند ہوں کے وہ سکول میں تعلیم حاصل کریں۔ جو والدین بچوں سے بھیک منگوائیں انھیں سزا دی جائے۔ جو ضرورت مند لوگ ہیں حکومت ان کے وظائف مقرر کرے۔سول سوسائٹی کو چاہیے کہ ان بھیکاریوں کو بھیک دینے سے انکار کر دیں۔ اور یہی پیسہ جمع کر کے اپنے رشتہ داروں میں غریب رشتہ داروں کی مدد کریں۔ جو کہ بھیک بھی نہیں ہو گی اور اللہ کے ہاں اجر بھی زیادہ ہو گا۔ حضور کریمؐ نے فرمایا کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ ایسا ناممکن تو نہیں کہ ہم ان تمام لینے والے ہاتھوں کو دینے والا ہاتھ بنا دیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے دور میں لوگوں کے گھروں میں اس قدر آسودگی تھی کہ لوگ زکوۃ لے کر پھرتے اور کوئی لینے والا نہ ہوتا۔ یہ وقت پھر آسکتا ہے۔ اس وقت قوم کے اندر خوداری اور غیرت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تمام چھوٹے کشکول جو کہ ملکی معیشت کو تباہ کر رہے ہیں تبھی ٹوٹ سکتے ہیں۔ جب قوم کے لیڈرز بڑے کشکول توڑ کے غیرت کا ثبوت دیں گے۔ ورنہ جتنی بھی کوشش کر لیں بھیک جیسی لعنت کا جھومر ہمارے ماتھے پر سجا رہے گا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024