پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون اور بعض مغربی ممالک کا یہ بیان کہ سزائے موت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے نہایت ہی تعجب خیز اعلامیہ ہے۔ کیا انسانی حقوق قاتلوں اور دہشتگردوں کے ہوتے ہیں۔ کیا مقتولوں اور مظلوموں کے انسانی حقوق نہیں ہوتے۔ دنیا کے کئی ممالک میں سزائے موت کا قانون موجود ہے امریکہ میں کئی ریاستوں میں بھی قاتل کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ سزائے موت پر پابندی اقوام متحدہ کے منشور میں درج نہیں اور نہ ہی عالمی برادری نے کسی ایسی دستاویز پر دستخط کئے ہیں جس میں قاتلوں کیلئے سزائے موت پر پابندی لگائی گئی ہو۔ سزائے موت پر عمل درآمد کی کسی بھی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں۔ پاکستان کو یہ دھمکی دینا کہ سزائے موت کی سزا برقرار رکھنے پر جی ایس پی پلس اسٹیٹس متاثر ہو سکتا ہے۔ نہ صرف گیدڑ بھبکی ہے بلکہ پاکستان کو دہشت گردوں کے حوالے کرنے کی ناپاک سازش بھی ہے۔ گویا بقول اقبال …؎
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ رومن کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا محترم پوپ فرانسس نے بھی قاتلوں کو پھانسی دینے کی سزا کی مخالفت میں یہ موقف اختیار کیا کہ قاتل کو سزائے موت دینا انصاف نہیں بلکہ انتقام ہے۔ کیا انصاف طلبی کو جذبہ انتقام کا نام دیا جا سکتا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ نے جذبہ رحمت کے تحت فرمایا تھا کہ اگر کوئی آپ کے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم دوسرا گال بھی پیش کردو۔ یہ صلہ رحمی‘ مروت‘ امن اور محبت کا بے مثال و لازوال ابدی اصول ہے۔ لیکن کیا عملی طورپر عیسائیوں نے اس کو رواج پذیر کیا۔ کیا عیسائیوں نے رومن کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کے درمیان کشت و کشتار کو روکا۔ صلیبی جنگوں سے گریز کیا گیا۔ کیا یہودیوں کے قتل عام سے دنیائے عیسائیت کے ہاتھ ہولو کاسٹ میں سرخ نہ ہوئے۔انگریزی کا محاور ہے۔ ’’تاخیر انصاف انکار انصاف ہے‘‘ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ’’قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے‘‘ اگر قاتلوں کو قتل کی کھلی چھٹی دے دی جائے اور ان کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہ ہو اور قرآنی حکم ’’جان‘‘ کے بدلے جان پر عمل نہ کیا جائے تو ہر دولت مند اور طاقت ور جسے چاہے قتل کروا دے گا اور بقول شاعر…؎
پتھرا نہ جائے زندگی تہذیب رو نہ دے
اتنی بھی چھوٹ اے خدا انسان کو نہ دے
انگریز شاعر ولیم شیکسپیئر اپنے ایک ڈرامہ بعنوان ’’ہملٹ‘‘ میں لکھتا ہے کہ جب ہملٹ اپنے سازشی اور قاتل چچا کو جس نے اسکے بادشاہ باپ کو زہر دیکر مروا دیا تھا اور نہ صرف تاج و تخت پر قابض ہوا بلکہ ہملٹ کی ماں سے شادی بھی کرلی تھی وہ اسے قتل کرنے کے ارادے سے اسکے کمرے میں داخل ہوتا ہے تو اسے عبادت میں مصروف دیکھ کر ارادہ قتل ترک کر دیتا ہے۔ اسکے خیال میں اگر مصروف عبادت چچا کو قتل کر دیا تو اس کے گناہ معاف ہو جائینگے اور وہ جنت کا حقدار ٹھہرے گا گویا ولیم شیکسپیئر یہ درس دے رہا ہے کہ ہر کسی کے مذہب و مسلک کا احترام واجب ہے اور حالت عبادت میں کسی کو قتل کرنا خود جہنمی ہونے کے مترادف ہے لیکن کتنے افسوس کا مقام ہے کہ نعرہ تکبیر بلند کر کے آج کچھ مذہبی جنونی گرجا گھروں‘ مندروں‘ مسجدوں اور امام بارگاہوں پر حملہ آور ہو کر حالت عبادت میں لوگوں کو قتل کر کے اس پر اسلام کی مہر تصدیق بھی ثبت کر رہے ہیں۔ خود کش حملہ آور جنت کے حق دار ہونے کے داعی ہیں۔ نوروز کی ایک تقریب میں شام کے ضلع مفتی میں کرد برادری پر دو خودکش حملہ آوروں نے حملہ کر کے پندرہ افرادکو جان بحق اور ڈیڑھ سو کو زخمی کر دیا۔ مسلمانوں کے نفاق اور افتراق کا یہ عالم ہے کہ ملوکیت اور ملائیت کی بدولت یہ آپس میں دست و گریباں ہیں۔ اتحاد امت پارہ پارہ ہے۔ فرقہ واریت سے بے نیاز شکیل بدایونی پکاراٹھا تھا …؎
مرا کفر حاصل زہد ہے مرا ز ہد حاصل کفر ہے
مری بندگی وہ ہے بندگی جو رہین دیرو حرم نہیں
عالمی اور مکی تناظر کیساتھ ساتھ برصغیر میں بھی گزشتہ 67 سال سے مسئلہ کشمیر ایک آتش فشاں کی صورت بھارت اور پاکستان کی معیشت کو خاکستر بنا چکا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی‘ جمہوریت کشی‘ اسلام دشمنی اور اقوام متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں سے انکار ایٹمی جنگ کی طرف دونوں ممالک کو جھونک رہاہے۔ 23 مارچ جو کہ پاکستان کا یوم جمہوریہ بھی ہے یوم پاکستان بھی ہے اس موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کو مبارکباد دی اور خیرسگالی کا پیغام دیتے ہوئے کہاکہ مذاکرات کیلئے ساز گارماحول ضروری ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے کہا کہ کشمیر مسئلہ بھارت اور پاکستان دوطرفہ مذاکرات سے حل کر سکتے ہیں اور تیسرے فریق کشمیریوں کو مذاکرات میں شامل کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ نئی دہلی میں 23 مارچ کی تقریب کے موقع پر پاکستانی ہائی کمیشن میں کشمیری رہنماؤں سید علی گیلانی‘ میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک نے کہا کہ کشمیری پاک بھارت تنازعہ میں تیسری پارٹی نہیں بلکہ اصل فریق ہیں۔ یہ درست ہے کہ اقوام متحدہ میں 1948ء کی قرارداد میں مسئلہ کشمیر کو پاکستان‘ بھارت اور کشمیریوں کے درمیان تنازعہ قرار دیا گیا جب کہ 1949ء کی قرارداد میں ترمیم کر کے اسے بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ قرار دیا جسے کشمیریوں کے آزادانہ استصواب رائے سے حل کیا جائے گا لہذا کسی صورت میں بھی کشمیریوں کو اس تنازعہ سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ امن عالم کیلئے فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کا حل اور مذہبی و مسلکی رواداری ضروری ہے۔ بصورت دیگر عالمی امن کی کوئی ضمانت نہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024