26 جولائی بروز بدھ امام صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کی تیسری برسی تھی وہ میرے FRIEND, PHILOSOPHER اور GUIDE بھی تھے۔ میرا ان سے ایک اور روحانی رشتہ بھی تھا۔ وہ میرے گورنمنٹ کالج لاہور کے منہ بولے بڑے بھائی حمید نظامی کے چھوٹے بھائی بھی تھے۔ حمید نظامی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی صدر بھی تھے اور ان کی بدولت ہی مجھے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا سر گرم رکن بننے کا اور ان کی قیادت میں بیرسٹر محمد علی جناح کو کئی بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ حمید نظامی مجھ پر اس لئے بھی خصوصی شفقت اور محبت رکھتے تھے کیونکہ وہ میرے حقیقی بڑے بھائی حبیب اللہ بھٹی کے گہرے دوست اور کلاس فیلو بھی تھے جس بناء پر وہ اکثر موہنی روڈ پر واقع ہمارے گھر افضال منزل میں بھی آتے تھے۔ حمید نظامی اور مجید نظامی دونوں کا تعلق اگرچہ ننکانہ سے تھا لیکن دونوں بھائیوں نے شہر لاہور کو اپنا دوسرا گھر بنا لیا تھا اور دونوں نے اپنی ساری عمریں داتا کی نگری اور شہر اقبال کی نذر کر دی تھیں۔ یہ بات کہتے ہوئے میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ امام صحافت اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے بانی صدر نوائے وقت گروپ کے چیئرمین اور اس دور کی عہد ساز شخصیت ڈاکٹر مجید نظامی کی تیسری برسی کے موقع پر شہر لاہور لہولہان ہے جس سے پورا پاکستان سوگوار ہو گیا ہے۔ ارفع کریم ٹاور کے سامنے خودکش دھماکہ میں 9 پولیس اہلکاروں سمیت 28 شہید اور 56 افراد زخمی ہو چکے ہیں کئی زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق 8 سے 10 کلو بارودی مواد خودکش دھماکہ میں استعمال ہوا جس میں پولیس کو نشانہ بنایا گیا۔ حملہ آور کا سر ٹانگ اور بازو مل گئے۔ چہرہ نا قابل شناخت بتایا جاتا ہے۔ حملہ آور کی عمر کا اندازہ 20 سال سے 22 سال کہا گیا ہے۔ طالبان نے حملہ کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
پاکستان کئی سالوں سے حالت جنگ میں ہے۔ امن و امان کی حالت انتہاء پسندی‘ فرقہ واریت‘ کرپشن کی انتہاء مذہب کے نام پر اسلام کی بدنامی گڈگورننس کا فقدان اُوپر سے شہر اقبال کا جو اب حمید نظامی اور مجید نظامی کا بھی شہر بن چکا ہے کہ اس کی دو بڑی شاہراہیں ان دو عظیم بھائیوں کے نام منسوب ہو چکی ہیں۔ حالیہ خوفناک دھماکہ نے مجید نظامی کی عدم موجودگی کے زخموں کو پھر سے ان کی برسی کے موقع پر تازہ کر دیا ہے۔
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
آبروئے صحافت کی برسی کے موقع پر پاکستان کے تمام بڑے شہروں خصوصی طور پر اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے مختلف اداروں نے تقریبات منعقد کیں ہیں۔ مناسب ہوتا اگر وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سرکاری سطح پر خصوصی تقریب کا اہتمام کرتے لیکن یہ فریضہ حسب معمول نظریہ پاکستان ٹرسٹ نے بھر پور طریقے سے کارکنان پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے ساتھ مل کر محترمی جسٹس محمد رفیق تارڑ (سابق صدر پاکستان) کی صدارت میں برادرم شاہد رشید کے زیر انتظام احسن طریقے سے ادا کیا ہے۔ میں شرمندہ ہوں کہ خرابی صحت کے باعث جسمانی طور پر میرے اعضاء ساتھ نہ دے سکنے کے باعث حاضری نہ دے سکا لیکن میرا دل ہر لمحہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور کارکنان ورکرز ٹرسٹ کے ساتھ شریک محفل تھا۔ ڈاکٹر مجید نظامی کے ساتھ میاں محمد شریف مرحوم و مغفور اور ان کے دونوں فرزندان کا تعلق کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ایک وہ وقت بھی تھا جب میاں محمد شریف مرحوم نے جناب نواز شریف کے ساتھ ڈاکٹر مجید نظامی کے گھر جا کر ان کو پاکستان کی صدارت کا عہدہ جلیلہ قبول کرنے کی درخواست کی تھی لیکن نظامی صاحب نے نہایت شکریہ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی تھی کہ وہ نوائے وقت کی صدارت کو ملک کی صدارت پر ترجیح دینا پسند فرمائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آج اگر ڈاکٹر مجید نظامی زندہ ہوتے تو وطن عزیز کی حالت اس قدر دیگرگوں نہ ہونے دیتے۔ جو سب کے سامنے ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مسلم لیگ نون کی کابینہ کے ارکان آج بھی نہایت دھوم دھڑکے سے اعلان کرتے رہتے ہیں کہ حالات ٹھیک ٹھاک ہیں۔
ملک ترقی کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔ محض چند سازشی جو اس ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانا چاہتے ہیں ان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن وہ حکومت میں ہوتے ہوئے ان سازشی کرداروں کو بے نقاب کرکے نہ جانے کس حکمت عملی کے تحت ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے متواتر پردہ پوشی اور اجتناب سے کام لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک پانچ رکنی فاضل بنچ نے حال ہی میں جو 3/2 کا فیصلہ سنایا ہے اس میں دو فاضل جج صاحبان نے یہ قرار دیا ہے کہ جناب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کے بعض دیگر افراد ’’صادق اور امین‘‘ نہیں ہیں جبکہ دیگر 3 جج صاحبان نے مزید تحقیقات کیلئے 6 رکنی JOINT INVESTIGATION TEAM (JIT) کو نامزد کر کے سپریم کورٹ کی نگرانی میں 60 دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ یہ 60 دن گزر چکے ہیں اور JIT نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے سپریم کورٹ کو پیش کر دی ہے۔ فاضل سپریم کورٹ نے مناسب غور و غوض کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر دیا ہے جو کسی بھی وقت سنایا جا سکتا ہے۔
اس وقت چونکہ تمام قوم کی نظریں سپریم کورٹ کی طرف لگی ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے نازک موقع پر جب پاکستان کا مستقبل بڑی حد تک اس فیصلہ سے گہرا تعلق رکھتا ہے اگر ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم و مغفور حیات ہوتے تو کیا وہ تمام فریقین کی جن کا تعلق اس تاریخی مقدمہ سے ہے اور پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ جو طویل غورو غوض کے بعد اپنا فیصلہ سنانے والی ہے۔ کیا ایسے نازک موقع پر وہ خاموش رہتے اور قوم کو مایوس کرتے۔ میرا ایمان ہے کہ ڈاکٹر مجید نظامی ایسے موقع پر بغیر لگی لپٹی وطن عزیز کے بہترین مفاد میں اپنی قیمتی رائے اور مشورہ اپنے خصوصی انداز میں تمام فریقین عدالت عالیہ اور پوری قوم کے سامنے پیش کرتے ہوئے وارننگ دیتے کہ اگر کسی عقل کے اندھے فریق نے ان کے صائب مشورہ پر عمل نہ کیا تو اس کے کیا بھیانک نتائج ہونگے جس کو یہ قوم برداشت نہیں کرے گی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ صحافت کے عظیم تر تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مجید نظامی نے وزیراعظم محمد نواز شریف کو وارننگ دی تھی کہ اگر انہوں نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو قوم ان کا دھماکہ کر دے گی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024