جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے سیاست میں ایک بار پھر گرما گرمی پیدا کر دی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) مٹھائیاں بانٹ رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے عمران خان سے معافی مانگنے اور سیاست سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے رپورٹ پارلیمنٹ میں لانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ عید کے دنوں میں بارشوں نے موسم تو ٹھنڈا کر دیا تھا لیکن جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے ٹھنڈے موسم کو بھی گرم کر دیا ہے۔ جبکہ عید کا دن ہر لیڈر نے اپنی اپنی مرضی کے مقام پر گزارا ہے لیکن جنرل راحیل شریف کے وزیرستان میں اگلے مورچوں پر جا کر عید منانے کو خراج تحسین ضرور پیش کیا جا سکتا ہے یقیناً پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کے اپنے سپہ سالار کو اپنے درمیان دیکھ کر حوصلے سربلند ہو گئے ہونگے جنرل راحیل شریف نے عید کا دن ان قبائلی علاقوں میں گزارا جہاں سے آپریشن ضرب عضب کی داغ بیل ڈالی گئی اور یہ بے مثال کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جنرل راحیل اور انکے ساتھیوں نے اس جنگی علاقے میں عید کی نماز پڑھی۔ انہوں نے جوانوں اور افسروں کو انکی بلند ہمتی اور بہادری پر مبارکباد دی۔ انہوں نے اس موقع پر فخریہ انداز میں کہاکہہماری قوم کا اپنی مسلح افواج پر اعتماد اور حمایت ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف کیساتھ ساتھ تمام کورکمانڈروں نے عوامی انداز میں عید منائی اور قوم کیساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ عید کے تہوار کے موقع پر فوج کی عوام کیساتھ محبت ایک مثالی رہی۔ یہ کام سیاستدانوں کا تھا جس کو فوجی سربراہ کی قیادت میں فوجی کمانڈروں نے پورا کیا۔ جنرل راحیل شریف نے ایک طاقتور اور پرعزم سربراہ کا image قائم کیا ہے دنیا بھر میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ ہو یا سعودی عرب انکی قدر میں سب ایک ہیں۔ چین بھی کسی سے کم نہیں جبکہ برطانوی وزیراعظم نے تمام جمہوری روایات کو نظرانداز کرتے ہوئے انہیں حکومتی سربراہ کے مساوی پروٹوکول دیا اور خود ان کا استقبال کیا اس طرح جنرل راحیل کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اسکے ساتھ ساتھ ان سے توقعات بھی بڑھ گئی ہیں۔ فوج کے اندر احتساب اور احتساب بیورو کے ذریعے سویلین کا احتساب سب کے پیچھے جنرل راحیل شریف کی شخصیت نظر آتی ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ NAB عملی طور پر آزاد ادارہ بنا دیا گیا ہے اور کرپشن کو روکنے کیلئے اور بڑے بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے کیلئے نیب کو سٹیبلشمنٹ کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے۔ اسی لئے تو جنرل راحیل سول حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کر رہے۔ عمران خان کے دھرنوں میں مشہور کیا گیا تھا کہ فوج کی Backing ہے لیکن یہ خبریں غلط ثابت ہوئیں۔ جوڈیشل کمیشن کے ذریعے دوبارہ انتخابات کرانے کیلئے بھی فوج کی خواہش جیسی خبریں سنی جا رہی تھیں جوکہ درست نہیں نکلیں۔ جس طرح دہشتگردی ملک و قوم کیلئے خطرناک اور تباہ کن ہے اسی طرح کرپشن کا ناسور بھی ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور جو بھی کوئی بلاامتیاز اور بلاتفریق کرپشن کے خلاف کارروائی کریگا پوری قوم کی اس کو حمایت حاصل ہو گی ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ احتساب یکطرفہ ہوتا رہا ہے جبکہ احتساب کے سامنے کسی کی تمیز نہیں ہونی چاہئے کہ کون بڑا ہے اور کون چھوٹا؟
عمران خان نے الیکشن میں دھاندلی کے الزام پر تحریک شروع کی تھی۔ سیاسی پارٹیوں اور دانشوروں کی متفقہ رائے تھی کہ کسی حلقہ میں دھاندلی کا فیصلہ الیکشن ٹربیونل نے کرنا ہے لیکن تحریک انصاف نے اس پر توجہ دینے کی بجائے دھرنا سیاست شروع کر دی۔ میں نے اپنے ہر کالم میں مشورہ دیاکہ دھرنے کی بجائے پارلیمنٹ اور عدالت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اسی طرح میں نے حکومت سے بھی ہمیشہ مطالبہ کیاکہ جوڈیشل کمیشن بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ میں نے اس پر بھی اپنی بھرپور رائے کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور نجم سیٹھی پر منظم دھاندلی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا اس لئے تو میں نے حکومت سے کہا تھا کہ انہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جوڈیشل کمیشن حقائق اور شہادتوں کی روشنی میں ہی فیصلہ کریگا۔ مجھے خوشی ہے کہ میری بات درست نکلی۔ اب اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا جبکہ عمران خان نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ میرے سوال وہیں کے وہیں رہ گئے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے۔ کمیشن نے کام ادھورا چھوڑ دیا ہے جس سے میرے خدشات بڑھے ہیں۔ (ن) لیگ، الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسروں سے ملی ہوئی تھی انہوں نے اپنے اراکین اسمبلی کی قومی اسمبلی میں شرکت کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے کہاکہ کمیشن نے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ دھاندلی کے حوالے سے تحریک انصاف کا موقف جائز تھا۔ الیکشن کمیشن کے پاس رابطے کا فقدان تھا۔ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کیلئے نادرا اور الیکشن کمیشن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ نچلے عملے کی تربیت نہیں کرائی گئی۔ چین آف کمانڈ غیر موثر تھا۔ چاروں صوبوں میں الیکشن کمیشن کے اراکین کا الیکشن میں کوئی رول نہیں تھا۔
دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے مثبت باتیں کیں۔عمران خان کا اسمبلی میں بھرپور کردار ادا کرنے کا اور سڑکوں پر نہ آنے کا فیصلہ بھی خوش آئند ہے۔ اب گالی گلوچ اور احتجاجی سیاست بند ہونی چاہئے۔ پارلیمنٹ بہترین فورم ہے۔ بدقسمتی سے عوامی مسائل حل نہیں ہو رہے۔ بجلی کا بحران حل نہیں ہو رہا۔ اسکی طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے سڑکیں اور میٹرو بس بڑی ضروری ہیں لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ بجلی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے آپ کو فارغ سمجھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انتخابی اصلاحات کیلئے بنائی گئی کمیٹی کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔ بدقسمتی سے پارلیمنٹ کی بنائی گئی انتخابی اصلاحات کمیٹی آج تک آگے نہیں بڑھ سکی۔ کمیٹی کو تیزی سے کام کرنا چاہئے اور عوام خصوصاً وکلاءاور دانشوروں کو اس میں شامل کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کو مثبت کام کی طرف توجہ دینی چاہئے جیسے جنرل راحیل شریف‘ تمام کورکمانڈر اور ڈی جی رینجرز کراچی خاموشی مگر دلجمعی کے ساتھ ٹھوس، مثبت اور تعمیری کاموں کی طرف لگے ہوئے ہیں۔ جس سے بیوروکریسی اور سیاستدانوں کو بھی سبق سیکھنا چاہئے۔ سیاسی شعور بڑھ چکا ہے اب لوگ کارکردگی پر یقین رکھتے ہیں زبانی اور کھوکھلے نعرے نہیں چل سکتے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024