کسی نے اطلاع دی کہ تحریک آزادی پر آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک سکھ دانشور کو لیکچر کےلئے مدعو کیا گیا ہے۔ایک نوجوان لندن سے آکسفورڈ کےلئے بڑے شوق سے لیکچر سننے کےلئے روانہ ہوا۔لوگ جوق در جوق ہال میں داخل ہورہے تھے۔اس نوجوان کو جہاں جگہ ملی بیٹھ گیا۔ مہمان کے سٹیج پر آنے تک ہال بھر چکا تھا۔ حاظرین ایک ایک لفظ غور سے سن رہے تھے۔ لیکچر جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا سکھ دانشور پٹڑی سے اترتے جارہے تھے۔انہوں نے پاکستان کیخلاف بات کی اور قائد اعظم کی ہرزہ سرائی کی تو لندن سے آکسفورڈ آنیوالا نوجوان کھڑا ہوگیا۔اور چلاتے ہوئے شدید غصے میں کہا۔”اوئے سکھا! بکواس بند کر“اس پر ہال میں سناٹا چھا گیا ۔ہر کسی کی نظریں اس نوجوان پر جم گئیں۔یہ نوجوان مجید نظامی صاحب تھے۔جن کے قریب سے تحریک آزادی کے دوران شہادت گزری تھی۔ایک جلوس کے دوران ایک عمارت سے مسلمانوں کے دشمنوں نے پتھراﺅ کیا۔ایک اینٹ نظامی صاحب کے ساتھ موجود کلاس فیلو محمد مالک کے سر پر لگی ۔وہ شدید زخمی ہوئے ۔انکو نظامی صاحب نے سنبھالا۔محمد مالک نے نظامی صاحب کی بانہوں میں دم توڑا۔نظامی صاحب نے اپنی تحریر اور تقریر میںکئی بار کہا کہ یہ اینٹ مجھے بھی لگ سکتی تھی۔
مجید نظامی کو ہم سے بچھڑے ایک سال ہوگیا۔ہر تقریب میں انکی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ وطن سے محبت انکے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ فوجی حکمرانوں کے سامنے بڑے بڑوں کا پتا پانی ہوجاتا ہے۔ مگر مجید نظامی ان سے کھڑک کر بات کرتے تھے۔
ایک تقریب میں جنرل ضیاءالحق اور نظامی موجود تھے۔نظامی صاحب نے ایوانِ اقبال کی تعمیر کی بات کی تو فوجی گورنر نے ناگواری سے اسکی مخالفت کی۔اس پر نظامی صاحب نے اپنے خصوصی انداز میں جنرل ضیاءالحق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔جنرل صاحب !پاکستان اقبال اور قائد کی جدوجہد کا ثمر ہے۔پاکستان نہ بنتا تو ہندوستان میں آپ زیادہ سے زیادہ صوبیدار ہوتے۔ اس پر جنرل ضیاءنے گورنر کے رویے پر معذرت کرتے ہوئے ایوانِ اقبال کی تعمیر کی منظوری دیدی۔
مجید نظامی صاحب واقعی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرا¿ت رکھتے تھے۔ایک ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا جنرل یحییٰ خان نے کچھ صحافیوں کیخلاف ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت مقدمات قائم کررکھے تھے۔ اسلام آباد میں ایک پریس بریفنگ کے بعد مولانا کوثر نیازی نے جنرل یحییٰ خان سے صحافیوں کیخلاف مقدمات واپس لینے کی درخواست کی۔ جنرل یحییٰ نے کہا صحافی معافی مانگ لیں اس پر اجلاس میں خاموشی چھا گئی۔ کوثر نیازی نے کہا جنرل صاحب! اس خاموشی کو ہی معافی تصور کرلیں۔اس پر مجید نظامی کھڑے ہوگئے اور کہا جنرل صاحب! ہم کس بات کی معافی مانگیں۔ جنرل یحییٰ نے کہا پھر جاﺅ اور مقدمے لڑو۔ نظامی صاحب کہتے ہیںمیں نے پوچھا کہاں۔ جنرل یحییٰ نے کہا ”مارشل لا کورٹس میں“۔ میں نے کہا ہم نہ مارشل لاءکو مانتے ہیں اور نہ ہی ان کورٹس کو کورٹس تسلیم کرتے ہیں۔ جنرل یحییٰ ناراض ہوکر ا±ٹھ کر چلے گئے۔ حنیف رامے نے کہا نظامی صاحب نے بنابنایا کام خراب کردیا۔ مجید نظامی صاحب نے کہا اگر میں بھی خاموش رہتا اور کلمہ حق نہ کہتا تو اسے صحافیوں کی جانب سے اجتماعی معافی تصور کیا جاتا۔
جنرل ضیاءالحق سے نوائے وقت کے رپورٹر نے انٹرویو کی درخواست کی تو انہوں نے شرط عائد کی کہ نظامی صاحب بھی انٹرویو کرنےوالی ٹیم میں شامل ہونگے۔نظامی صاحب نے شرط مان لی۔انٹرویو ختم ہواتو جنرل ضیاءالحق نے کہا نظامی صاحب! آپ بھی کوئی سوال پوچھیں۔ نظامی صاحب نے کہا کہ آپ نے میرے آنے کی شرط لگائی تھی، سوال پوچھنے کی نہیں۔ضیاءصاحب کہنے لگے کچھ تو پوچھیں۔ انکے اصرار پرنظامی صاحب نے پوچھا ”جنرل صاحب ساڈی جان کدوں چھڈو گے“۔ جنرل ضیاءالحق پریشان ہوگئے اور کہنے لگے کہ بہتر تھاکہ میں آپ سے کچھ نہ پوچھتا۔ضیاءالحق نے ایک بار بھارت کے دورے پر ساتھ جانے کو کہا تو نظامی صاحب نے یہ کہہ کر لاجواب کردیا کہ جنرل صاحب ! ٹینک پر بیٹھ کے جاﺅ گے تو ساتھ چلوں گا۔
آج پاکستان اگر ایٹمی پاور تو اس میں بھی نظامی صاحب کا دلیرانہ کردار ہے۔وزیر اعظم نواز شریف ذاتی مفادات کے اسیر سیاستدانوں اور صحافیوں کے چنگل میں تھے جو بل کلنٹن کی اربوں ڈالر کی پیشکش قبول کرنے پر ان کو قائل کرچکے تھے۔اس موقع پر نظامی صاحب نے کہا تھا ”میاں صاحب !دھماکہ کردیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کردےگی،میں آپکا دھماکہ کردونگا“
جنرل مشرف کے سامنے کھڑے ہوکر ان کو چلینج بھی صرف نظامی صاحب ہی نے کیا۔انہوں نے صحافیوں کو مدعو کررکھا تھا۔ نظامی صاحب خاموش بیٹھے رہے تو جنرل مشرف نے انکو سوال کرنے کی دعوت دی۔نظامی صاحب نے کہا کہ آپ نے پاول کی ایک کال پر سرنڈر کردیا۔ مشرف کا ایسے سوال پر رنگ توپیلا پڑنا ہی تھا۔ انہوں پوچھا میری جگہ آپ ہوتے تو کیا کرتے۔نظامی صاحب کا جواب تھا میں کیوں ہوتا۔میں اپنا کام کررہا ہوتا۔نظامی صاحب کہتے ہیں کہ اسکے بعد مشرف نے انہیں کسی بھی تقریب بلانے سے منع کردیا۔
یوں تو پورا سال میں نظامی صاحب کی قربتوں اور الفتوں کو بھلا نہیں سکاتاہم گزشتہ روز پہلی برسی پرنظامی صاحب کی بے طرح یادآتی رہی۔جہاں تک میں جانتا ہو وہ عاشق رسول اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے والے شخص تھے ۔ اللہ بھی ایسے لوگوں سے پیار کرتاہے۔ اللہ نے انکوہزارراتوں سے بہتر رات شب قدر اور سیدالایام جمعة الوداع المبارک کو اپنے پاس بلایا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024