رائے منصب علی خان سے سیاست دان ہونے کے ساتھ نوائے وقت کے کالم نگار بھی تھے ۔ وہ کبھی کبھی مضمون لکھا کرتے تھے جن میں پاکستان کی محبت کی ہمیشہ جھلک موجود ہوتی۔ اپنے کالم کے حوالے سے وہ فون کرتے یا میرے کالم پر کبھی اظہار خیال کرتے تھے۔ شوکت علی شاہ ننکانہ صاحب اسسٹنٹ کمشنر رہے اور پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ننکانہ صاحب میں رائے منصب علی خان وکالت کرتے رہے ۔یہیں سے دونوں میں دوستی ہوئی ۔ ننکانہ صاحب سے شروع ہونیوالی دوستی رائے صاحب کے آخری سانس تک برقرار رہی۔ رائے صاحب کے انتقال کی اطلاع مجھے میرے بھتیجے ملک عامر نے فون پر دی۔ میں نے رائے منصب اور رائے رضوان کے موبائل پر کنفرم کرنے کی کوشش کی دونوں فون بند تھے۔ شوکت علی شاہ صاحب کو فون کیا ان کیلئے بھی یہ افسوسناک اطلاع تھی۔ شاہ صاحب نے کہا کہ دس دن پہلے وہ رائے صاحب سے ملے تھے۔ وہ بیمار تو تھے مگر اتنے نہیں کہ یہ کہا جا سکے ، وہ زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہے ہیں۔ تین ماہ قبل رائے منصب علی خان نے فون کرکے کہا کہ کافی عرصے سے کالموں کا سلسلہ رکا ہوا تھا‘ اب دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے ضلع ننکانہ کے قصبے بچیکی سے رانا لال خان نے فون پر کہا کہ ’’ہمارے علاقے کا کوئی حال ہے اور نہ کوئی وارث ۔ ایم این اے رائے منصب علی خان بیمار ہیں اور ایم پی اے گڈ خان اغوا ہو چکے ہیں حلقے کے مسائل پر کچھ لکھیں‘‘ (اسکے ایک دو روز بعد گڈ خان بازیاب ہو گئے تھے)۔ اسی شام میں نے رائے صاحب کو فون کیاجو رضوان نے سنا۔ رائے رضوان، رائے منصب کے رشتے میں نواسے ہیں جو عموماً رائے صاحب کے ساتھ ہوتے تھے۔ میں نے رائے صاحب کی صحت کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے اس معاملے کواخفا میں رکھا تھا، آپ کو کیسے علم ہو گیا؟ رائے منصب نے بھی بات کی۔ انہوں نے گھٹنوں میں درد کے بارے میں بتایا۔وہ علاج سے مطمئن تھے اور ڈیڑھ دو ہفتے میں مکمل صحت یابی کیلئے پُر امید تھے۔
رائے منصب علی خان شریف اور وصنعدار سیاستدان تھے۔وہ پانچ چھ مرتبہ انتخابات جیتے اور کئی بار ہارے بھی تھے۔ان کا مقابلہ عموماً کوٹ حسین کے بھٹی خاندان سے ہوتا تھا۔رائے بشیر احمد خان بھٹی اور بعد ازاں رائے رشید احمد خان بھٹی انکے مد مقابل رہے۔آج رائے شاہجہان، بھٹی خاندان کے سیاسی جاں نشین ہیں۔رائے منصب کے انتقال سے علاقے میں سیاست کا ایک باب بند ہو گیا۔ ان کی اولاد نرینہ نہیںہے۔ بیٹیاں لاہور میں پلیں بڑھیں وہ الیکشن میں حصہ لینے کی خواہش مند ہیں۔ انکی حمزہ شہباز سے دوتین روز قبل ملاقات ہوچکی ہے جبکہ رائے صاحب کے کچھ قریبی عزیز چاہتے ہیں کہ ٹکٹ رائے منصب علی خان کے بھتیجے توصیف خان کومل جائے ۔جوگریجوایٹ، زمیندار اور حلقے میں شریف آدمی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کیلئے حلقہ این اے 137 سے ٹکٹ کا فیصلہ ایک امتحان ہے۔صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے اور لوہے کو گرم دیکھ کو چوٹ لگانے کی شہرت رکھنے والے مہر سعید پڈھیا آزاد امیدوار کی حیثیت سے اس حلقے سے انتخاب میںحصہ لے رہے ہیں۔ مہر سعید کے کارنامے حلقے میں انکی دلچسپی کی دلیل ہیں۔تحریک انصاف کے یہاں سے امیدوار بریگیڈئیر اعجاز شاہ ہیں۔ انکے ننکانہ صاحب میں کرائے گئے کام انکی فعالیت کے گواہ ہیں۔ یہ بات میں نے اپنے کالم میں لکھی تو اس پر رائے منصب علی خان ناراض ہوئے۔ ایک طویل خط بھی لکھا جس میں بریگیڈئیر صاحب کی بیرون ملک جائیداد کی تفصیل اور کرپشن کا بھی کچھ ذکر تھا۔ میں نے رائے صاحب سے کہا کہ اس خط کو میں اپنے کالم کا حصہ بنا لیتا ہوں۔ رائے صاحب نے کہا کہ ایسا مناسب نہیں ہو گا۔ بریگیڈئیر اعجاز شاہ کی ننکانہ صاحب میں سیاسی حیثیت کافی بہتر ہے۔ وہ پنجاب کے داخلہ سیکرٹری اور آئی بی کے سربراہ بھی رہے۔مئی 2013 کے الیکشن میں رائے منصب کے مقابلے میں 5 ہزار ووٹوں سے شکست کھائی اور کم و بیش اتنے ہی ووٹ اس حلقے سے مسترد ہوئے۔ انہوں نے دوبارہ گنتی کی درخواست دی مگر دوسری پارٹی نے سٹے لے لیا تھا۔ ایک وہ وقت تھا پنجاب کی سیاست ہوم سیکرٹری بریگیڈئیر اعجازشاہ کی مٹھی میں بند تھی۔ جس کو چاہتے ایم این اے، ایم پی اے بنوا سکتے تھے۔ ایم این ایز دست بستہ حاضری کیلئے قطار میں کھڑے ہوتے۔ پھر اپنے ایم این اے بننے کا وقت آیا تو لب بام سے دو چار ہاتھ کے فاصلے سے کمند ٹوٹ گئی۔ اب پھر وہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ بڑازعم ہو گا کہ ننکانہ کو پیرس نما بنا دیا۔ ننکانہ شہر میں پورے حلقے کے مقابلے میں ایک چھوتھائی ووٹ بھی نہیں ہیں اور شہر کے باہرکی ٹوٹی سڑکوں پر خاک اڑتی ہے۔ ہمارے ہاں فوجی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خود کوطاقتور سمجھتے ہیں۔ عوام کے دل رعونت سے نہیں انکساری سے جیتے جاتے ہیں۔ لوگوں کی بات سننے کیلئے اردلی نہیں رکھے جاتے، راتوں کی اپنی نیندیں بھی حرام کی جاتی ہیں۔ شاہ جہاں بھٹی 2013ء کے انتخابات سے قبل ن لیگ میں شامل ہوئے۔ ٹکٹ نہ ملا تو واپس پی پی پی میں چلے گئے۔ وہ تھوڑی سی مستقل مزاجی سے کام لیتے تو آج ن لیگ کا ٹکٹ ان کو مل سکتا تھا۔بلا شبہ آج سیاست میں ن لیگ اور تحریک انصاف کا طوطی بولتا ہے۔ اس حلقے میں عارف خان سندھیلہ کیلئے بھی پذیرائی موجود ہے۔ بریگیڈئیر صاحب کی طرف سے سندھیلہ کو کلثوم نواز کی میزبانی سے منع کیا گیا اور نواز شریف کا ٹیلی فونک خطاب رکوانے کیلئے بھی کوشش کی گئی تھی۔ سندھیلہ بھی اس حلقے سے الیکشن لڑنے کیلئے بے تاب ہیں۔بعض حلقوں کی رائے ہے کہ ن لیگ جہاں سے سعید پڈھیار کو ٹکٹ دیتی ہے تو سیٹ آسانی سے نکال لے گی۔سعید پڈھیا رآزاد لڑتے ہیں تو بھی ان کا چانس بن سکتا ہے،مقابلہ خوب ہوگا۔یہ بھی شنید ہے کہ ن لیگ امیدوار باہر سے لائی تو مہر سعید اور بریگیڈیئر اعجاز شاہ اکٹھے بھی ہو سکتے ہیں۔ چودھری محمد حسین سے سیاسی صورتحال کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہناتھا یہ سیٹ کسی کی بھی پکی سیٹ نہیں ہے جس کا عوام کی نبض پر ہاتھ ہوتا ہے وہ جیت جاتا ہے کوئی جتنے بھی دعوے کرے قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ حلقہ این اے 137سے رائے منصب علی خان مرحوم کی سیٹ کس کے حصے میں آئیگی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024