قارئین اپ نے دیکھا ہو گا کسی بھی اچھے کام کرنے پر ہم اکثر و بیشتر کسی بھی شخص کی عظمت بیان کرتے وقت زیادہ تر ایک فقرہ استعمال کرتے ہیں کہ "یار دیکھو وہ شخص بڑا خاندانی ثابت ہوا ہے" گویا ان تعریفی کلمات میں ہم اس شخص کی عظمت کی وجہ اسکے عملی کردار کو نہیں دیتے بلکہ اس حقیقت سے بے خبر کہ انسانیت کے قائد ہمارے راہبر محمد صلی الہہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں کیا فرمایا تھا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت کوئی برتری حاصل نہیں اگر کسی کو کوئی چیز دوسرے سے افضل کرے گی تو وہ ہو گا اسکا عملی کردار یعنی کہ رنگ و نسل خاندانی حسب و نصب کا اس میں کوئی کمال نہیں ہو گا ہمارا معاشرتی المیہ اس واضع سبق کے باوجود ہماری گفتار میں اسکے اچھے عمل کی وجہ اسکی فطرت نہیں بلکہ اسکا خاندانی پسِ منظر ہی بیان کیاجاتا ہے تو دوستو جو معاشرے اس جیسی لعنت کا شکار ہوتے ہیں وہاں موریثیت کا جنم کوئی اچنبھے کی بات نہیں پھر پاکستانی سیاست میں اگر بھٹو کا نواسہ، نواز شریف کی بیٹی ، پرویز الہی کا بیٹا اور ان جیسے سینکڑوں دیگران کے نومولود سیاسی قیادتوں کیلئے آگے آتے ہیں تو پھر یہ رونا دھونا یہ سیاپا کٹی یہ ماتم کیسا اور کیوں۔ قارئین میں جب کالم لکھتا ہوں تو میرے نزدیک میرا کالم میرے اور میرے قاری کے درمیان ایک مکالمہ ہوتا ہے جس میں اکثر اوقات میں اپنے آپ سے بطور قاری کئی سوال پوچھتا ہوں اور پھر انکے جواب کےلئے کبھی کتابوں کا سہارا لیتا ہوں کبھی دانشوروں کے افکار سے رجوع کرتا ہوں کبھی سوشل میڈیا پر دوستوں کی مہیا کردہ معلومات سے استفادہ کرتا ہوں اور کبھی آدھی سے آدھی رات کو اٹھ کر اپنے وجّدان سے علم کی خیرات مانگتا ہوں۔ ابھی اوپر اٹھائے گئے سوال کا جواب ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ اللہ تعالی کی عنایت کے وسیلے عسکری میدان سے تعلق رکھنے والے ایک بہت پیارے سچے اور خوبصورت دوست جمال ہوتی کی طرف سے میسنجر پر سقراط کا ایک قول موصول ہوا ہے جو اپنے اندر میرے سوال کا جواب سمیٹے ہوئے ہے جسے میں یہاں رقم کر رہا ہوں جو کچھ اسطرح ہے "فطرتاً ہر شخص خیر کا طالب ہے مگر جہالت کی وجہ سے شر کو خیر سمجھ لیتا ہے۔ اس لیے زندگی میں مسلسل یہ کوشش ہونی چاہیے کہ جہالت کو دور کیا جائے تا کہ لوگ خیر اور شر میں امتیاز کر سکیں" دوستو انسانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپکو پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک شخص ملے گا جسکا نام ابو جہل تھا غور کریں ابو جہل کو ابو جہل کیوں کہا جاتا تھا حالانکہ اسکا اصل نام تو عمرو بن ھشام تھا اور مکہ والے اسلام کے ظہور سے پہلے اسکی عقل ،دانش اور حکمت کی وجہ سے اسے "ابوالحکیم" کے نام سے پکارتے تھے۔ پھر کیا وجہ بنی کہ عمرو بن ھشام ابوالحکیم سے ابو جہل کہلایا۔ جہالت سے حکمت کے سفر کی سمجھ تو آتی ہے کہ علم کی نعمت جہالت سے حکمت کے منصب کی سرفرازی سے تو نواز سکتی ہے لیکن حکمت سے جہالت کی طرف تنزلی سمجھ نہیں آتی۔ ذرا تھوڑا سا غور کریں تو ساری بات سمجھ آ جائے گی جب نبی اکرم نے نبوت کا دعوی کیا تو عمرو بن ھشام نے حضور نبی اکرم کی ذاتی صفات اور بلند کردار کو دیکھنے کی بجائے اندھی تقلید اور خاندانی برتری کو ترجیح دی کہ بنو مخذوم کا سردار قبائلی روایات سے بغاوت کرتے ہوئے کس طرح بنو ہاشم کے ایک فرزند کو اپنا نبی اور راہبر مان لے بس یہ آندھی تقلید اور خاندانی برتری کا زعم ہی دراصل وہ جہالت تھی جو اسکی تمام عقل دانش تدبر اور حکمت کو کھا گئی اور وہ ابو جہل کے نام سے تاریخ کا ایک سبق بن گیا۔ اپنے ملک پاکستان کی سیاسی تاریخ پر بھی ایک نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ خاندانی چودھراہٹ اور برتری کا احساس ہمارے معاشرے میں بھی آج اسی طرح موجود ہے جیسے آج سے چودہ سو سال پہلے موجود تھا۔ ایک دو کو چھوڑ کر ہماری سیاست میں کوئی ایسا نام بتا دیں جسکے متعلق ہم کہہ سکیں کہ اس شخص کا چناو¿ اسکے خاندانی پس منظر یا چاپلوسی کے ثمر کی بجائے ذاتی کردار کی فضیلت کی وجہ سے ہوا ہے۔ دوستو جہالت صرف علم سے دوری کا نام نہیں دراصل انسان جب اپنے نفس کو اپنی ذاتی خواہشات اور ضروریات کا غلام بنا لیتا ہے تو وہ پھر جہالت کے اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔ وطن سے دوری کی وجہ سے کچھ حقائق کا موقع کا چشم دید گواہ تو نہیں ہوں لیکن پچھلے ہفتے لاہور کے حلقہ 120 میں الیکٹرانک میڈیا نے جو مناظر دکھائے ہیں اسے دیکھ کر اپنی جہالت پر رونا ہی نہیں آیا بلکہ ماتم کرنے کو دل کیا کہ ہماری ذاتی خواہش اور ضرورت صرف بریانی کی ایک پلیٹ اور قیمے والے ایک نان تک ہی محدود رہ گئی ہے جسکے بدلے ذاتی اہلیت کو دیکھے بغیر آندھی تقلید میں ہم اپنے ضمیر کا سودا کر رہے تھے یہ جانے بغیر کہ یہ ایک قیمے والا نان یہ ایک بریانی کی پلیٹ ہمیں کتنے میں پڑ رہی ہے۔
جی دوستو ہم میں سے ہر فرد اسکی ایک لاکھ سولہ ہزار روپے قیمت ادا کر رہا ہے جو اپنے اپنے دور کی سیاسی یا اسٹیبلشمنٹ اشرافیہ کی ناقص پالیسیوں اور عیاشیوں کی وجہ سے قرضے کی صورت میں ہمارے سروں پر سوار ہے اور ہم آوے آوے، اک واری۔۔۔ فیر اور بنے گا نیا پاکستان کے نعروں میں لگے ہوئے ہیں۔ یقین جانیے اس الیکشن پر جہاں عمومی ذہنی پسماندگی پر رونا آ رہا ہے وہاں میری تیسری آنکھ کو جو خطرہ سب سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے اس پر بے شک میرے بہت سے صحافی دوستوں نے اپنے کنسرن اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ حیرت میں مبتلا کیا ہے وہ ہے میری یہ تشویش کہ کیا طالبان ڈاکٹرین سے ہم نے کوئی سبق حاصل کیا ہے یا نہیں۔ میرے نزدیک حکومت اور ریاست میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ہر حکومت کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے اور وہ اپنی پالیسیاں بناتی رہتی ہے جس میں وہ غلطیاں بھی کرتی رہتی ہے لیکن ریاست کا کام اس سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ حکومت کی غلطی عوام بھگتی ہے جبکہ ریاست کی غلطی سے پورے ملک کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے اور ریاست کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ اگر حکومت وقت کوئی غلطی کرے تو وہ فوراً اسکا ادراک کرے آخر ریاستی تھنک ٹینک ہوتے کس لئے ہیں۔ اہل دانش کہتے ہیں لالچ غصے بغض انتقام اور پیار میں کئے گئے فیصلے درست نہیں ہوتے۔ میری بات سمجھنے والے سمجھ گئے ہونگے کہ میں کس تناظر میں بات کر رہا ہوں ایک سچے پاکستانی ہونے کے ناطے میری صرف اتنی عرض ہے کہ اب دا غلطی گنجائش نشتہ۔