شکر ہے ایک مرتبہ پھر مفاہمت پر اتفاق۔ بڑوں کی ملاقات رنگ لے آئی۔ مزاحمت یا دوستی۔ سبھی ہر دو کے فوائد۔ نقصانات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ رہا اتفاق تو وہ ہے اور رہے گا۔ مزید براں جھگڑا ہے نہ اختلاف۔ سارا کھیل ’’بچانے‘‘ کے گرد گھوم رہا ہے۔ بلکہ ایک بڑی حقیقت جو آشکار ہو رہی ہے وہ سچائی کا طلوع ہوتا سورج۔ کہیں مدھم کہیں تیز کرنیں ضرور سہی۔ پر دیکھنے کے لیے اب ٹیلی سکوپ کی ضرورت نہیں۔ ’’وزیر اعظم‘‘ نے سچ کہا کہ ’’نواز شریف‘‘ کو صدر بناتے وقت کچھ لوگ خاموش رہے۔ اب بولنے کا مقصد ؟ بات تو درست ہے۔ جو لوگ ’’آج وقت آگیا ہے صحیح کو صحیح کہنے کا‘‘ کا ترانہ پڑھ رہے ہیں۔ کیا سمجھتے ہیں کہ قوم سچ سے محروم ہے۔ حقائق سے لا علم ہے۔ کیا پہلے وقت نہیں تھا۔ یا ضمیر مردہ تھے۔ زبانیں مفادات کی گولی تلے گنگ تھیں۔ جب کشتی ڈوبنے کی ہوائیں چل رہی ہوں تبھی ’’سب کچھ‘‘ کیوں جاگتا ہے۔ بدلتی رُت کے مزاج آشنا گروہ۔ ایسے لوگ چلتی گاڑی سے چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ سرکاری ملازم ریٹائرمنٹ کے بعد ’’دانشور‘‘ کا چوغہ پہن لیتا ہے جبکہ سیاستدان اپوزیشن میں آکر ’’اصول پرست‘‘ بن جاتے ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ معافی گناہ کرنے کے بعد مانگی جائے؟ سچ رُخصتی کی (من گھڑت) افواہوں کے موسم میں بولا جائے؟ صلح لڑائی کرنے کے بعد کی جائے۔ کوئی قوم کو کتنا بیوقوف بنا سکتا ہے یا یہ خود فریبی کے حصار میں کتنا عرصہ مقید رہ سکتا ہے۔ اِسقدر سفاک تضاد۔ ایک ایوان میں ساتھ کھڑے ہوکر قانون میں ترمیم پاس کروائی اب۔ ’’سینٹ‘‘ میں ترمیمی بل منظور کر لیا کہ’’نا اہل شخص‘‘ پارٹی قیادت نہیں سنبھال سکتا۔ ’’گل دیلے دی ، پھل موسم دا‘‘ کتنی سچی کہاوت ہے ہر دوسرے ٹرک پر کندہ نظر آتی ہے انھی سٹرکوں پر جن پر عوام ہی نہیں اشرافیہ بھی فراٹے بھرتی گزرتی رہتی ہے۔ ’’وزیراعظم‘‘ کے معترض الفاظ سے بات’’ صدر مملکت‘‘ تک جا پہنچے گی کہ ملک لُوٹنے والوں سے ’’اللہ تعالیٰ رحمن‘‘ بدلہ لے گا۔ ’’15 ہزار ارب‘‘ کے قرضوں کے استعمال پر بھی سوال اُٹھا دیا۔ یقینا ’’صدر مملکت‘‘ سے زیادہ حقائق سے آگاہ کوئی نہیں۔ اب جوش خطابت تھا۔ مخاطب پہلے والے تھے یا موجودہ۔ ’’تردید‘‘ آنے کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ کھڑا ہے کہ آپ سے زیادہ با رسوخ کون ہے۔ وہ عوام بد عنوان عناصر کو کیسے پکڑ سکتے ہیں جن کی اپنے منتخب نمائندوں تک رسائی نہیں۔ ہر دور میں ’’کرپٹ مافیا‘‘ کو’’این آر او‘‘ دینے والے کب اپنا وطیرہ بدلیں گے۔ کرپشن کو پھیلنے۔ اپنی جڑیں پھیلانے اور مافیا کو ’’سہولت کاری کی راہداری‘‘ فراہم کر نے والے کب گرفت میں آئیں گے؟ایک عرصہ ہو چلا۔ قوم اچھے ریمارکس پر جی رہی ہے۔ اب تو سبھی یک نکاتی ایجنڈہ پر کھڑے چیخ رہے ہیں کہ بیانیہ ہی بدل لو۔ الفاظ نہیں چاہیں۔ عمل کی راہداری پر آئیں۔ خالی تقاریر کا بوجھ بہت وزنی ہوچکا ہے۔ یہ آپ کے ہی خلاف استعمال ہوگا اور بھی رہا ہے۔ تصویریں وہ نہیں جو ہم دیکھتے ہیں۔ ہماری آنکھیں تکتی ہیں۔ باتیں وہ نہیں جو ہمارے کان سُنتے ہیں۔ اصل کہانی وجود کے اندر خنجر کی طرح پیوست ہوتی ہے۔ ہر شخص کا اصل باطن کے دل میں چُھپا بیٹھا ہے۔ مفاہمت سے زیادہ اچھی چیز کوئی نہیں۔ اِس کے فوائد جاننے کے باوجود ہم ’’ضدی بچے‘‘ کے مانند باہم تصادم کے متمنی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں بہت بڑا حصہ’’میڈیا ‘‘کا پیدا کردہ ہے۔ یہ جو صبح سے رات گئے تک آزادی اظہار کے پرچم تلے۔ سچائی کے دیوتا بنے اپنے مرقد سجا کر بیٹھتے اور خود کے ساتھ قوم کو بیوقوف بنانے کے مشن پر اپنی تما کے دئیے جلاتے ہیں۔ کیا وہ ملک کے خیر خواہ ہیں ؟ جماعتی کرداروں کو براہ راست نشریات میں لڑانے کے پروگرام پر گامزن خود کی ذات سے قوم کو کیا فوائد منتقل کر رہے ہیں۔ احتساب بہت اچھا عمل ہے۔ جائز مطالبہ ہے مگر مخصوص دائرہ میں کیوں ؟ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ جرائم کی سزائیں سب کے لیے یکساں ہیں مگر نفاذسب پر کیوں نہیں۔ عمل درآمد میں ہر مجرم۔ ملزم کیوں نہیں آتا ؟؟’’ این آر او ‘‘اگر کرنا ہے تو پھر ایک ’’ریڑھی والے‘‘ سے بھی کریں۔ ’’معزز چیئرمین نیب‘‘ کا اعلان سراہتے ہیں کہ ’’میگا کرپشن ‘‘ مقدمات اب الماریوں میں بند نہیں رہیں گے۔ یہ اعلان ہے۔ عزم کی صداقت’’فعل‘‘ ثابت کرے گا۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ ’’میگا کرپشن‘‘ کی کہانیوں کی تدفین نہیں ہونے دیں گے وہاں انصاف کے ترازو کو برابر رکھ کر مجرمان کے ساتھ اُن کے اعمال نامہ کی بنیاد پر قانون کا نفاذ ممکن بنائیں گے۔ مزید براں کوئی قانون۔ احتساب سے بالاتر نہیں اور یہ بھی روشن صبح نمودار ہو کہ’’ کام۔ کام۔ کام‘‘ ہوتا نظر آئے۔
واپس پلٹتے ہیں اُس بیانیہ کی طرف جو آجکل زبان زد عام ہے۔ ایک ’’بڑے دفتر‘‘ سے بیان جاری ہوا بیانات کا سلسلہ تو پہلے سے جاری تھا۔ بڑا دفتر ہے بیان کا سائز بھی بڑا ہونا تھا۔ ترقی و خوشحالی کے لیے پارلیمنٹ کا احترام ضروری ہے۔ مسائل کا حل آئین۔ قانون۔ پارلیمنٹ کی بالادستی میں ہے۔ اِسی طرح۔ مقامی سطح کا سیاستدان کہتا سنائی دیا کہ پارلیمنٹ بالادست ہوگی تو ملک کے معاملات چلیں گے۔ الفاظ کو بغور پڑھیں۔ پہلی نظر میں مشکوک حوالہ۔ دل۔ دماغ میں بُعد کو ظاہر کرتا مذاق۔ اگر یہ مذاق ہے تو بہت سطحی مذاق ہے۔ اِس تمام الفاظ بازی میں وہ غریب طبقہ کہاں گیا جس کے بازوٗں۔ کندھوں پر چڑھ کر اعلیٰ ایوانوں میں پہنچتے ہیں۔ تاریخ بڑی ظالم کتاب ہے۔ وقت کا نہ تھمنے والا جبر۔ ہمیشہ مانند اب کی مرتبہ بھی خود کو دہرا رہی ہے۔ غلط مشیر۔ تیز مشورے مگر ذرا مختلف انداز میں۔ بادشاہت میں باپ نے بیٹوں کو مروایا۔ بیٹے نے باپ کو دار پر چڑھایا۔ اب جسمانی قتل نہیں ہوتے۔ سیاسی ہلاکتیں رونما ہو رہی ہیں۔ کہیں ’’عالمی پاور‘‘ کو دی۔ کہیں مقامی بغاوت۔ تیزطراری۔ دُشنام۔ ضرورت سے زائد اعتماد۔ ’’پیاری بیٹی‘‘ نے؟؟
’’پیور ریسرچ سنٹر کا سروے‘‘۔ ’’38ممالک۔ 41 ہزار شہری۔‘‘ دنیا میں جمہوری نظام کی مقبولیت کم ہونے لگی ہے۔ کامیاب جمہوری ممالک میں بھی متبادل نظام کی حمایت ہے۔ سخت گیر اور ٹیکنو کریٹ حکومت کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے حتیٰ کہ لوگ فوجی آمریت کو بھی سراہنے لگے ہیں۔ جمہوریت کے حمایتی بیانات بلکہ پچھلی تمام تقاریر کی قدر و منزلت نظروں میں گھٹ گئی جب تذکرہ بالا سروے پڑھا۔ یہ کسی نو آزاد ملک یا چند ایکٹر رقبے پر محیط ریاست نہیں بلکہ جمہوریت کے ’’پڑدادا ممالک‘‘ کے ایک بڑے ملک کے تھنک ٹینک کا سروے ہے۔ حیرت ہے ہم جس پر قربان ہو رہے ہیں پوری دنیا کو جمہوریت کا درس پڑھانے والے۔ اِس نظام سے تنگ آرہے ہیں۔ تو ’’سوچنے کا مقام ہے‘‘۔