پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اس بات سے مشروط رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ان کی خواہش کے مطابق کام کیا جاتا رہے گا۔ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مسلسل کام کر رہا ہے مگر یہ کام اپنے جغرافیائی اور علاقائی معاملات کو سامنے رکھ کر کرتا ہے۔ امریکہ دو وجوہات کی وجہ سے غیر مطمئن رہا ہے۔ ایک تو وہ اس بات کا ادراک نہیں کرتا رہا کہ ہمیں اسی خطے میں اور انہی سرحدوں اور ہمسایوں کے ساتھ رہنا ہے لہٰذا دہشت گردی کے نیٹ ورکس کے خلاف اقدامات سوچ سمجھ کر کرنے پڑتے ہیں جبکہ امریکہ چاہتا ہے کہ اگر وہ افغانستان میں عراق کی طرح ناکام بھی ہوا ہے تو یہاں پاکستان اُسے اندھا دھند کام کر کے کامیابی کی نوید سُنا دے جو کہ ممکن نہیں ہے۔ دوسری بات ہندوستان کے امریکہ کو گمراہ کرنے کی ہے۔ حالیہ دورے میں بھی امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کابل سے یہاں آئے اور پھر ہندوستان روانہ ہو گئے یعنی آخری بریفنگ ہندوستان کے حصے میں آئی ہے اور ہندوستان اچھا ہمسایہ بن کر خلوص نیت کے ساتھ خطے کی بہتری پر مبنی کلام نہیں کر سکتا۔ امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے ’’ڈومور‘‘ کے پیغام میں اس مرتبہ یہ بات اہمیت اختیار کر گئی تھی کہ ہم انٹیلی جنس شیئرنگ کی بنیاد پر آگے چلیں گے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دنیابھر میں انٹیلی جنس کے ادارے کام کرتے ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ نے ایک کتاب "By Wag of Deception" لکھی تھی اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’’یہودی جہاں بھی ہے موساد سے تعاون کرتا ہے‘‘… انہوں نے یہ نہیں لکھا کہ موساد سے وابستہ یہودی تعاون کرتا ہے۔ یعنی ہر یہودی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ امریکی صدر کلنٹن نے بھی کہا تھا کہ سرد جنگ میں فتح حاصل کرنے میں ’’سی آئی اے‘‘ نے اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ امریکی ایف بی آئی نے صدر کینڈی کے خفیہ معاشقوں کو آشکار کیا تھا چونکہ امریکہ میں ذاتی پرائیویسی کو اہمیت حاصل ہے لیکن اس کام کے لئے یہ کہا گیا تھا کہ یہ حرکات ملک و قوم کے لئے نقصان دہ ہیں اور مزید یہ کہا گیا کہ ’’دشمن عورتوں کے ذریعے امریکہ کو کمزور کرنا چاہتا ہے‘‘۔ امریکہ کے صدر جارج واشنگٹن نے کہا تھا۔ ’’مجھے جس سے خوف آتا ہے وہ دشمن کا جاسوس ہے۔ اس پر کڑی نظر رکھنا ہو گی اور یہ کام ذمہ دار کارندوں کو سونپنا ہو گا‘‘۔ اسرائیلی ایجنسی کے سربراہ یا امریکی صدور کے یہ بیانات اپنی جگہ پر اہمیت رکھتے ہیں مگر روس کے سربراہ میخاوف کی بات بڑی اہمیت کی حامل ہے انہوں نے کہا۔ ’’دفاعی راز معلوم کرنے کی بجائے اب اقتصادی اور تکنیکی راز معلوم کیے جا رہے ہیں تاکہ عالمی اقتصادی منڈی میں ہمارا دیوالیہ ہو سکے‘‘۔ آج عالمی اقتصادی منڈی میں روس کی حالت دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان کو اب نہایت ذمہ داری سے سوچنا ہو گا کہ انٹیلی جنس شیئرنگ میں وہ کس انداز سے اور کس حد تک کام کر سکیں گے؟ پاکستان ایٹمی ملک ہے اور کہوٹہ کی سیر کرنے کا شوق کئی دلوں میں موجزن ہے جبکہ بھارت کے جاسوس ہمارے ہاں وافر رہتے ہیں اور پھر القاعدہ اور ٹی ٹی پی سے ہندوستان کے روابط بھی ہیں۔ ایسے میں ہمارے انٹیلی جنس اداروں جن میں خصوصاً آئی ایس آئی کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جائے گی کیونکہ امریکہ اب حکمرانوں کی بجائے انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان کے ذریعے دہشت گردی کے نیٹ ورک کا خاتمہ کرے گا اور ہماری انٹیلی جنس شیئرنگ کی حد کیا ہو گی؟ اور کیا ہمارے معاملات اسی انداز میں ہندوستان کی نالج میں بھی آ جائیں گے یا ملکی سلامتی کے لئے بعض رازوں کو راز میں رہنے دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں منیر نیازی کے مصرعہ کی طرح ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘ والا فارمولا موجود رہتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم خاقان عباسی بے شک ’’نو مور- نو مور‘‘ کا نعرہ لگاتے رہیں مگر امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کی اس بات کو ابھی سے سر جوڑ کر بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ آپ انٹیلی جنس شیئرنگ کے لئے کیا تیاریاں کر سکتے ہیں؟ پاکستان میں کئی طرح کی ایسی موومنٹس جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف کام کر رہی ہوتی ہیں ان کا پتہ بڑی دیر بعد معلوم ہوتا ہے۔ کلبھوشن جیسے جاسوس کے پکڑے جانے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کئی برسوں سے ہماری ملکی سلامتی کے خلاف کام کر رہا تھا۔ ایسے لوگ دیر سے پکڑے جاتے ہیں اور جب پکڑے جاتے ہیں تو ان کا معاملہ عالمی دنیا کے سامنے درست انداز میں اٹھایا نہیں جاتا اور ان معاملوں میں ہندوستان سبقت لے جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں ہندوستانی جاسوسوں کا اعتراف اس خبر سے بھی ملتا ہے جو ہندوستان ٹائمز میں شائع ہوئی تھی جس میں سابق جاسوسوں نے انصاف کے لئے ہندوستانی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا تھا۔ ہندوستان میں غربت بہت زیادہ ہے اور غریب لوگ ’’را‘‘ کا ایجنٹ بن کر کام کرنے کے لئے جلدی تیار ہو جاتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کے تازہ ترین بیان کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے انٹیلی جنس کے سربراہ کا انتخاب غیر سیاسی بنیادوں پر بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے کیونکہ امریکہ کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ میں بہت ذمہ داری کے ساتھ چلنا پڑے گا اور پھر روس کے سربراہ کی بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ محض دفاعی نہیں بلکہ اقتصادی اور تکنیکی معاملات پر نظر رکھ کر کسی قوم یا ملک کا دیوالیہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں اہم معاملات پر بڑی سلجھی سوچ رکھ کر آگے بڑھنے کا کام کیا جاتا ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کو اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کر کے پالیسی مرتب کرنا چاہئے کیونکہ محض دوسروں کے راز معلوم کرنا یا ایک دوسرے کے فون ٹیپ کرنا اور ان اداروں کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنا نہیں چاہئے بلکہ حکمرانوں کو ان اداروں کی رپورٹس پر ملکی سلامتی پر پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہونی چاہئے۔ جبکہ ان اداروں کے کارندوں کو نیک مقاصد کی طرف ہی متوجہ رہنا چاہئے۔ ہماری مذہبی روایات میں بھی ’’انٹیلی جنس‘‘ اہمیت رہی ہے۔ خود نبی پاکؐ اپنی جگہ پر حضرت علیؓ کو بستر پر لٹا کر ہجرت کر گئے تھے تاکہ وہ امانتیں لوٹا کر آ جائیں۔ اسی طرح دشمن کی قوت کا اندازہ کرنے کے لئے بھی افراد کو بھیجا جاتا تھا کہ یہ جان سکیں کہ وہ کتنے دن قیام کر سکیں گے؟ مگر یہ شیئرنگ دشمن کے ساتھ نہیں کی جا سکتی تھی۔