مقبوضہ کشمیر میں کل 87 نشستوں پر مرحلہ وار الیکشن میں 25 نومبر سے 23 دسمبر 2014ء تک تقریباً 73 لاکھ ووٹر اپنے حق کا استعمال کریں گے۔ یہ پانچ مرحلوں میں مکمل ہو گا۔ حالانکہ اب بھی مقبوضہ کشمیر میں بدترین سیلاب کی وجہ سے 24 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں اور اکثریت کھلے آسمان تلے بے سرو سامانی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بھارت کی موجودہ حکومت ان مجبور لوگوں کی مجبوری کو خرید رہی ہے۔ دھونس ، دھاندلی اور لالچ سے اپنی مرضی کا رزلٹ چاہتی ہے۔ بی جے پی کی حکومت اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد اپنی مرضی سے ترامیم پاس کرانا چاہتی ہے حالانکہ مقبوضہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت خود مسئلہ کشمیر UNO میں لے کر گیا اور وہاں سے منظور شدہ قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ بھارت نے نہ صرف پاکستان ، کشمیریوں اور پوری دنیا سے وعدہ کیا تھا تو امن ہونے کے بعد کشمیری عوام کی مرضی سے رائے شماری کرائے گا۔ اقوام متحدہ کی قررادادوں میں رائے شماری کے علاوہ کسی انتخاب کو بھی نعم البدل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انتخابی عمل کو دیکھا جائے تو صرف 87 نشستوں پر انتخاب کو دھاندلی کرنے کے لئے پانچ مرحلوں اور ایک ماہ میں ووٹ ڈالنے پر تقسیم کر دیا گیا ہے جو کہ صرف اپنی مرضی کا رزلٹ حاصل کرنا ہے۔ اس سے قبل آل پارٹی حریت کانفرنس کے رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں نے اس انتخابی عمل کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ سید علی گیلانی ، میر واعظ ، عمر فاروق اور یٰسین ملک سمیت تمام قیادت نظر بند ہے۔ بھارت کی حکومت کو چاہیے کہ وہ خام خیالی سے باہر نکلے اور حقائق کا سامنا کرے۔ کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی ڈیڑھ درجن کے قریب حق خود ارادیت کے مطابق کشمیریوں کو حق دے تا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کو پاکستان کی محبت نہیں ترقیاتی کاموں کی ضرورت ہے۔ دورے کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کی کال پر شٹر ڈائون اور ہڑتال کی گئی۔ اور الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا۔ اس موقع پر تمام کاروباری مراکز ، سکول و کالج اور دفاتر بند رہے۔ نریندر مودی کا کشمیر کے حوالے سے بیان بالکل حقائق کے منافی ہے۔ دیکھا جائے تو بھارت میں جو بھی اور جس بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہوتی ہے عرصہ دراز سے پالیسی کے تحت کشمیریوں کو لالچ کے طور پر کھانے ، پینے روز مرہ استعمال کی چیزیں ، بجلی ، پانی پر سستا پیکج دیا جا رہا ہے۔ اگر ترقیاتی کاموں اور سستے پیکج سے مسئلہ حل ہونا ہوتا تو کشمیری عوام بھی حق خود ارادیت کی نہیں اٹوٹ انگ کا نعرہ لگا رہے ہوتے۔ بھارت کامیاب ہو چکا ہوتا۔ تمام طرح کے حربوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں آئے دن گو بھارت گو کے نعرے سنائی دیتے ہیں۔ بھارت کے حکمران چاہے کانگریس ہو یا بی جے پی ہو سب کا ایجنڈا کشمیریوں اور مسلمانوں کو دبانا ہے۔ 1947ء سے اب تک کشمیریوں کے لئے کوئی دن بھی سکھ کا نہ ہوا ہے۔ اگر ساری سہولتیں کشمیریوں کو حاصل ہیں تو 1989ء سے اب تک آزادی کی لہر میں 1لاکھ نہتے لوگوں کی شہادت اجتماعی قبروں کا انکشاف ماروائے عدالت قتل ، کالے قوانین کی آڑ میں پر امن نوجوانوں کا اغواء اور لا پتہ ہونا یہ سب کچھ کیا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم کے بعد کشمیریوں کی مشکلات میں پہلے سے اضافہ ہو چکا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کامیابی سے لگ رہا تھا کہ ان کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔ حالانکہ میاں نواز شریف نے تمام تر مخالفت کے باوجود نریندر مودی کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کی۔ اور مصلحتاً کشمیر سمیت متنازعہ ایشو پر خاموشی اختیار کی لیکن بھارت میں اس کو بھی پاکستان کی کمزوری سمجھا۔ اور اپنے آپ کو مہا بھارت ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ اور جیسے ہی حکومت پاکستان نے حریت قیادت سے راہ و رسم بڑھائے تو جیسے بھارت کی دم پر پائوں آ گیا۔ اور اس کے بعد میاں نواز شریف نے سلامتی کونسل میں کھل کر کشمیریوں کی حمایت کی تو بھارت نے مذاکرات کا سلسلہ ہی بند کر دیا۔
بھارتی وزیر دفاع نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان حریت قیادت سے بات نہ کرے جیسے پاکستانی ہائی کمشنر نے کشمیری رہنمائوں سے ملاقات کی تو بھارت کے سیکرٹری خارجہ کے اسلام آباد کا دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ امن کی آشا اور تجارت کرنے والوں کو بھارت کی طرف سے جلدی پیغام مل گیا۔ ورنہ ہم تو صبح شام بھارت سے دوستی کے لئے اور انتہائی پسندیدہ قرار دینے کے لئے بے قرار تھے۔ کنٹرول لائن ورکنگ بائونڈری پر کئی ماہ بلا وجہ فائرنگ نے پاکستان کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ بھارت میں امن پسند لیڈر اور دانشور بھی کھل کر بھارت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے رویے پر نظر ثانی کرے۔ رام جیٹھ ملانی جنہوں نے 1990ء میں کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی تھی جبکہ وہ واجپائی کی حکومت میں تھے انہوں نے کہا کہ افسوس موجودہ حکومت کشمیریوں کی بات سننا نہیں چاہتی وہ پاکستان ، بھارت اور کشمیریوں کو ایک میز پر بیٹھا دیکھنا چاہتے ہیں تا کہ کوئی قابل قبول حل نکل سکے شاید نریندر مودی کے دور میں ایسا نہ ہو سکے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024