ہمارے میڈیا نے ایگزیکٹ کا فراڈ، جعل سازی اور دھوکہ دہی اپنی طرف سے ہر پہلو سے تمام تر جزیات کے ساتھ واضح اور بے نقاب کر دی۔ ہمارے کسی سکینڈل کا ایسا پوسٹمارٹم اور میڈیا ٹرائل کبھی نہیں ہواجیسا ایگزیکٹ کے حوالے سے جاری ہے۔ اس سے وسیع سطح پر رائے عامہ متاثر ہوئی اور حکومتی اداروں کے حکام جنونی بن کر ایگزیکٹ کے دفاتر پر چڑھ دوڑے۔ کچھ میڈیا گروپس بول کی رقابت میں ہیجانی اور ہذیانی کیفیت میں ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت ان گروپس کی خوشنودی کیلئے ’’جماں جنج نال‘‘ ہو گئی۔اس نے تو فوج کیخلاف مہم اور ہرزہ سرائی میں بھی اسی گروپ کا ساتھ دیا تھا۔ بول اگر اپریشنل ہوتا تو دیگر میڈیا گروپس، حکومتی زعما اور سیاسی اکابرین میں اسی طرح کی تقسیم نظر آتی جس طرح ایس آئی ایس کو امن کی آشا گروپ کے الزامات کی زد میں لانے پر ہوئی تھی۔ہمارے ہاں بہت سے میڈیا گروپ اپنے جائز اور ناجائز کاروبار کے تحفظ کیلئے بنائے گئے ہیں۔ ایک گروپ کے فنکشن میں بھگدڑ میں سات طالبات جان کی بازی ہار گئیں۔ مناسب انتظامات نہ ہونے کے تحت مقدمہ درج ہواتواسے صحافت پر حملہ قرار دیا گیا۔ بول کی باقاعدہ نشریات ہو رہی ہوتیں توآج ایگزیکٹ کو فراڈ اور دھوکہ باز قرار دینے والوں کی اکثریت اسکے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ڈیکلن والش کی سٹوری کو پاکستان میں مداخلت اور الزامات کو صحافت پر حملہ قرار دے رہی ہوتی۔ ایف آئی اے حکام کی اچھل کود کہیں نظر نہ آتی۔ اسکی دم کو آگ وزیر داخلہ کی خصوصی ہدایت پر لگی ہے۔ بول مخالف میڈیا اور چودھری نثار علی خان کے ماتحت اداروں نے اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ایک رخ عوام کے سامنے رکھا، دوسرے رخ پر بھی نظر ہونی چاہئے۔
پیپلز پارٹی کے سابق سی ای سی کے ممبراور آجکل طاہرالقادری کے پولیٹیکل سیکرٹری مطلوب وڑائچ کی زندگی کا طویل عرصہ یورپ میں گزرا۔ وہ امریکہ تواتر سے جاتے رہے، آجکل کینیڈا میں مقیم ہیں، وہ مغربی کلچر، تعلیم وتمدن کے بارے میں پاکستان کی حدود ہی کو کائنات سمجھنے والوں سے بہتر جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک میں ہزاروں آن لائن تعلیمی ادارے ہیں، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک سے لاکھوں روپے خرچ کر کے نوجوان تعلیم کیلئے وہاں جاتے ہیں تو ان کو دو کمروں پر مشتمل یونیورسٹی کیمپس کا سٹاف آن لائن ایجوکیشن کے طریقہ کار سے آگاہ کرتا ہے، اس سے سٹوڈنٹ کو اپنے روزگار کا بھی موقع مل جاتا ہے۔ فارغ التحصیل ہونے پر ڈگری بھی آن لائن جاری ہوتی ہے۔ آن لائن ایجوکیشن کا دائرہ کار مقامی اور بین الاقوامی سطح پر وسیع اور مقابلہ سخت ہو رہا ہے۔ ایگزیکٹ نے اس سسٹم میں تیزی سے ترقی کی اور عالمی اداروں میں نہ صرف اپنی جگہ بنائی بلکہ کئی بڑے بڑے اداروں کو مقابلے میں پیچھے بھی چھوڑدیا۔ اس سے پیچھے رہ جانیوالے بھی اسکے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ مطلوب وڑائچ کے تجزیئے کے مطابق ایگزیکٹ کو بدنام اور بند کرانا عالمی سطح کی منصوبہ بندی ہے جس سے بول کے مخالف ادارے اور بول کو سپورٹ کرنیوالی شخصیات کے مخالفین بھی میدان میں آ گئے۔ عمران کا نام سن کر الطاف کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ ملک ریاض کے سامنے افتخار احمد چودھری کا نام آئے تو وہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔میاں نواز شریف کا مشرف کے ذکرپر خون کھول اُٹھتاہے۔ چودھری نثار علی خان ملک ریاض کے ذکر سے آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ بول کے سپورٹرز اور فنانسرز میں ملک ریاض کا نام بھی آتا ہے۔لگتاہے چودھری نثار علی خان نے ایف آئی اے کو ملک ریاض کی وجہ سے بول کے پیچھے لگا دیا ہے۔اس کیس میں چودھری نثار کے پارٹی بننے کی کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ بول پر مشرف شو کے شروع ہونے کی ایڈ آتی رہی۔ میاں نواز شریف کے بال و پر جلانے کیلئے یہی کافی تھا، اب پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ کسی ٹی وی کے اینکر نہیں بن رہے تو میاں صاحب کے دل سے بول کیلئے سختی کم ہو گئی ہوگی۔
بول مخالف میڈیا گروپ مالکان اور کئی حکومتی عہدیداروں کیلئے نیویارک ٹائمز میں سٹوری دینے والا ڈیکلن والش ہیرو کا درجہ پا گیا ہے۔
بڑی بڑی مراعات پانے والے بڑے نام کے صحافیوں نے ڈوبتے دیکھا تو ایگزیکٹ کے ٹائی ٹینک سے چھلانگیں لگا دیں حالانکہ ایگزیکٹ پر جو الزامات لگائے گئے وہ ثابت ہوئے نہ اس کیخلاف کوئی فیصلہ آیا۔ہوسکتا ہے حسب سابق یہ لوگ گئے ہی واپس آنے کیلئے ہوں۔ شاباش مشتاق منہاس پر جس نے کہا کہ وہ مشکل کی گھڑی میں بول چھوڑ کر نہیں جائینگے۔
بول سے ہزاروں افراد وابستہ ہیں۔ بول کو ڈبونے کی خواہش رکھنے والے ان کو اسی تنخواہ پر اپنے ہاں لے آئیں یا انکی روٹی روزی لگی رہنے دیں۔ بول کا معاملہ جس طرح اٹھ رہا ہے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اسکے ہماری سیاست پر شدید اور سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔کچھ حکومتی عہدیداروں نے عناد اور کدورت کے باعث سی آئی اے، ایف بی آئی اور برطانیہ سے تعاون مانگا ہے۔ یہ تو انہوں نے انکے دل کی بات کر دی۔ دنیا میں آن لائن ایجوکیشن میں سرعت سے آگے بڑھنے والے ادارے کو مقابلے میں تو پچھاڑا نہ جا سکا، سازش سے بہت پیچھے چھوڑ دینے کا ان کو سنہری موقع ملے گا۔
ایگزیکٹ واقعی غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کے بعد اس کا کڑا احتساب ضرور ہونا چاہئے تاہم بول پر بندش کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس کیس کو رہنمائی کے طور پر لیتے ہوئے ایگزیکٹ جیسا کام کرنیوالے ہر ادارے کا محاسبہ بھی ہو تا ہوا نظر آنا چاہئے۔ جن سرکاری اور آن لائن قسم کے اداروں نے جعلی ڈگریاں جاری کیں جن پر پارلیمینٹرین نے الیکشن لڑا اور کئی لوگوں نے ملازمتیں حاصل کیں سب کیساتھ ایک جیسا سلوک ہوتو سمجھا جائیگا کہ واقعی حکومت بلاامتیاز انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کر رہی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024