مسلم لیگ (ضواد) کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی اعجاز الحق کی سیاست اور شرافت کا بھی جواب نہیں جس بہادر باپ کے وہ بیٹے ہیں پاکستان کے سیاسی افق پر اُس باپ نے 11 سال تک حکمرانی کی۔ آمر تک کہلوائے گئے مگر پاکستان کو حقیقی اسلامی اور جمہوری ریاست بنانے کے لئے جو اقدام انہوں نے کئے وہ کسی فوجی جنرل کا پہلا اعزاز تھا۔ ضیاء الحق مرحوم کے نظریہ اسلام کے سامنے بڑی بڑی مذہبی سیاسی شخصیات بھی بے بس نظر آتی تھیں شاید یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کے لئے محمد نواز شریف کو انہوں نے پنجاب میں سیاسی پہچان دی، شرعی عدالتیں، اسلامی کونسل کی تشکیل اور زکوٰۃ و عشر کمیٹیوں کے نظام کو متعارف تو کروایا مگر ان پر عمل نہ کروا سکے…؟حیرت کی بات ہے کہ 11 برس تک پاکستان میں سیاہ و سفید کے مالک جنرل محمد ضیا الحق مرحوم کے بیٹے اعجاز الحق اب اتنے ہی مجبور اور بے بس ہو گئے ہیں کہ اگلے روز اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ بے انصافی پر انہیں پُلس کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا…‘‘
واقعہ کچھ یوں تھا کہ اعجاز صاحب نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں واقع اپنے گھر (سیاسی شخصیات کے گھر نہیں کوٹھیاں ہوتی ہیں) کو مصدق ریاض نامی شہری کو کرایہ پر دے رکھا تھا۔ شرافت اور سادگی کا یہ عالم کے کوٹھی کرائے پر دینے کے بعد انہیں غالباً یہ ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی کہ وہ اپنی کوٹھی کے کرایہ دار سے اگر ماہانہ ویزٹ نہیں تو کم از کم ٹیلی فون پر معلومات تو شیئر کرتے… مگر جب انہیں یہ مبینہ اطلاع موصول ہوئی کہ کرایہ دار مصدق ریاض نے انکی کوٹھی میں توڑ پھوڑ کرنے کے بعد اسے کمرشل بنا لیا ہے اور کرایہ ادا کرنا بھی بند کر دیا ہے… تو انکی شرافت نے انہیں فوراً تھانہ کوہسار میں درخواست دینے کے لئے پابند کر لیا اور یوں اعجاز الحق نے اپنی درخواست میں واضح کر دیا کہ نومبر 2015ء سے تاحال کرایہ دار نے انہیں کرایہ بھی ادا نہیں کیا جو 27 لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے؟ اعجاز صاحب کی اس درخواست سے مجھے ان سے ہمدردی ضرور ہے مگر انکے اس اقدام سے میں اس لئے بھی ’’ایگری‘‘ نہیں کہ ڈیڑھ برس تک کرایہ دار انکی کوٹھی میں انہیں اطلاع دیئے بغیر اپنی من مانیاں کرتا رہا۔ ریذیڈنشل پراپرٹی کو چپکے چپکے کمرشل میں کنورٹ بھی کر لیا… سال سے زائد عرصہ کا کرایہ بھی نہ دیا اور جناب اعجاز الحق نے خاموشی، شرافت، عاجزی اور مخصوص مسکراہٹوں میں اللہ تعالیٰ پر ڈوری پھینکی رکھی…؎
اِس سادگی پے کون نہ مر جائے اے خُدا
میری سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آ پا رہی کہ ہماری سیاست میں تو ایک دیہی کونسلر یا یونین کونسل کا چیئرمین اتنا طاقتور تصور ہوتا ہے کہ پولیس تھانوں کے تمام دروازے صبح و شام انکے لئے کھلے رہتے ہیں… ’’پُلس‘‘ کے انچارج کو معلوم ہو جائے کہ فلاں کونسلر صاحب فلاں گرفتار شدہ ملزم کے بارے میں تحقیقی نوعیت کی معلومات حاصل کرنے یا ملزم کا بھلا کرنے کے لئے تشریف لا رہے ہیں تو ’’قنون شنون‘‘ کی تمام فائلیں اور تعزیراتی عمل چھوڑ چھاڑ کر وہ استقبال کے منتظر نظر آنے لگتے ہیں۔ مگر بااثر رکن اسمبلی اور مسلم لیگ (ض) کے سربراہ اعجاز الحق نے خود تھانے جانے کے بجائے محض درخواست دینے میں ہی اکتفا کیا ہے ناں قرب قیامت!اعجاز الحق صاحب متعلقہ تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر کو فون بھی کر سکتے تھے… اپنے کسی کولیگ ایم این اے کی ڈیوٹی بھی لگا سکتے تھے… حکومت میں شامل اپنے کسی وزیر سے بھی مدد حاصل کر سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا کچھ بھی نہ کرتے ہوئے شاید صرف قانون کی بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے یہ اقدام اٹھایا۔ بہرحال اس واقعہ کے بارے میں جاننے کے لئے میں نے جب انہیں فون کیا تو ان کی لائن مصروف تھی مگر چند ہی لمحوں بعد ان کی ریٹرن کال آ گئی۔ ادائیگی عمرہ کے لئے گاڑی میں سوار وہ ائرپورٹ جا رہے تھے۔ تفصیلات جاننے سے قبل میں نے انہیں یہ صائب مشورہ دیا کہ تھانے درخواست دینے سے بہتر یہ نہیں تھا کہ آپ میاں محمد نواز شریف کی Good Books میں شامل کسی ’’وزیر مشیر‘‘ سے اس بارے میں بات کر لیتے موجودہ حکومت کے وزیراعظم محمد نواز شریف پر بھی تو آپ کے والد مرحوم کے کئی سیاسی احسانات ہیں۔ نواز شریف کو سیاست میں لانے کے بعد جنرل ضیاء الحق ان سے بھرپور شفقت فرماتے رہے۔ مانا کہ آپکے میاں صاحب سے بعض امور پر سیاسی اختلافات موجود ہیں مگر سیاست سے بالاتر ہو کر آپ کے ذاتی قریبی مراسم بھی تو ہیں… کہنے میں کیا مضائقہ تھا۔ کہیں ارائیں یا کشمیری کی سیاسی دیوار تو حائل نہیں تھی۔!!!
اعجاز الحق نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا! مجھے معلوم تھا کہ آپ اسی طرح کا سوال کریں…؟
پہلی وضاحت تو یہ ہے کہ میرے ساتھ ہونے والی اس بے انصافی میں ارائیں یا کشمیری قبیلے کا کوئی عمل دخل نہیں… رہا معاملہ نواز شریف صاحب کا یا جو وزیر مشیر انکی گُڈ بکس میں ہیں اُن سے مدد یا تعاون حاصل کرنے کا تو میں یہ نہیں کر سکتا تھا اصولوں کا بندہ ہوں اپنے کام، اپنے معاملات، آپ ہی حل کرتا ہوں۔ دوستوں یا بہی خواہوں کو تکلیف دینا اچھا نہیں لگتا۔ دراصل مجھے یہ اندازہ ہی نہ تھا کہ ’’نوائے وقت‘‘ کے پہلے صفحے پر میرے حوالے سے لگی خبر اس قدر عالمی شہرت اختیار کر جائے گی۔ میری اپنی یہ خواہش تھی کہ میری دی درخواست کا معاملہ تھانے تک ہی محدود رہے مگر یہ تو آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پولیس والوں کو بھی تو P.R کی ضرورت ہوتی ہے۔ بس اُسی پی آر نے معاملہ یہاں تک پہنچایا ہے۔ باقی تفصیل انشاء اللہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد واپسی پر بتاؤں گا اب اجازت!
میں اب اس سوچ میں گُم ہوں کہ اعجاز الحق تو پھر بھی ایک غیرمعمولی سیاسی شخصیت ہیں جو ماضی میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔ حصول انصاف کے لیے انہیں جب تھانے میں جانا پڑا ہے تو مجھ اور آپ ایسے پاکستانی کا کیا بنے گا۔ مجھے اور آپ کو اگر اپنی حق حلال کی کمائی سے بنائی جائیداد مکان یا کوٹھی کا کسی بپھرے اور منہ زور کرایہ دار سے کرایہ حاصل کرنا پڑے اور وسائل بھی نہ ہوں… سیاسی پروٹوکول سے بھی محروم ہوں تو پولیس کا وہ کونسا بڑا تھانیدار اور تفتیشی افسر ایسا ہو گا جو ایسے کرایہ دار کے خلاف کارروائی کے لئے قانونی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ہمیں انصاف دلوائے گا۔؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38