وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مظفر آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست میں کامیابی دھرنے نہیں کچھ کرنے سے ملتی ہے، دھرنے والے کیسی تحریک چلائینگے۔ یہ آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج سے واضح ہو گیا، ان کو جتنی نشستیں ملی ہیں ایسی ہی انکی تحریک چلے گی، آزاد کشمیر کے انتخابات میں بڑے بڑے برج الٹ گئے ہیں، دھرنے والوں کو دو اور (ن) لیگ کو 32سیٹیں ملی ہیں، مسلم لیگ (ن) نے وہ معرکہ مارا، جس کا مخالفین سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ آزاد کشمیر میں بھی ترقی کا ایک نیا دور شروع کریں گے، آزاد کشمیر کے نوجوان کمر کس لیں، آزاد کشمیر میںترقی کا نیا انقلاب آنے والا ہے۔ قارئین کرام! آزاد کشمیر اسمبلی کی 41 نشستوں سے مسلم لیگ ن نے 32 نشستیں جیت کر اکیلے حکومت بنانے کیلئے واضح اکثریت حاصل کر لی۔ عموماً یہی ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر میں وہی پارٹی کامیاب ہوتی ہے جس کی وفاق میں حکومت ہو، جب پیپلز پارٹی وفاق میں حکمران تھی تو آزاد کشمیر میں بھی وہ ہی کامیاب ہوئی تھی۔ان انتخابات میں کئی بڑی سیاسی جماعتوں نے بڑے بڑے جلسے کر کے کشمیریوں کے دل جیتنے کی کوشش کی لیکن بیشتر مقررین نے اپنا پورا وزور میاں نواز شریف کیخلاف لگا دیا، کشمیر اور کشمیریوں کی فلاح کیلئے کوئی بات نہیں کی۔ ن لیگ کی نمایاں کامیابی سے ظاہر ہو گیا کہ کشمیری ان باتوں سے متاثر نہیں ہوئے۔ انہیں پانامہ لیکس اور شریف خاندان کی مبینہ بد عنوانیوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جبکہ عمران خان اور بلاول زرداری کا پورا زور اسی نکتے پر تھا۔ اپنی پارٹی کی تاریخ اور جغرافیے سے ناواقف اور خود انکے والد کے قول کے مطابق سیاسی نابالغ بلاول زرداری نے تو کشمیریوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے اپنے نانا اور والدہ کے اقوال بھی ڈھونڈ نکال لائے، حتیٰ کہ مقبوضہ کشمیر میں آپریشن جبرالٹر کا حوالہ بھی دیدیا جو نہ صرف انتہائی ناکام اور احمقانہ منصوبہ تھا بلکہ اسی کی وجہ سے بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا۔ بیرسٹر سلطان محمود کی شکست کی ایک اہم وجہ انکی تحریک انصاف سے وابستگی تھی، اسکے علاوہ ان کی انتہائی قابل اعتراض تقریر نے بھی منفی اثرات مرتب کیے۔ انہوں نے اعلان فرمایا کہ اگر کسی وزیر بلکہ صدر آزاد کشمیر نے بھی مداخلت کی تو اسے گولی مار دو، ذمے دار میںہوں گا۔ کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے منصب پر فائز بیرسٹر سلطان محمود کے اس بیان کو تحریک انصاف کی پالیسی ہی سمجھا گیا ہو گا۔ عمران خان نے اس سے برأت کا اعلان بھی نہیں کیا۔ ن لیگ کے مقابلے میں کشمیر کی پرانی جماعت مسلم کانفرنس نے 3نشستیں حاصل کی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار اور موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید میر پور سے اپنی نشست بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ انتخابات فوج کی نگرانی میں ہوئے، چنانچہ معمولی جھڑپوں کے سوا کوئی بڑا فساد نہیں ہوا۔ مجموعی تاثر یہ ہے کہ دھاندلی بھی نہیں ہو سکی لیکن پیپلز پارٹی نے یہ کہہ کر نتائج مسترد کر دیئے کہ دھاندلی انتخابات سے پہلے کی گئی اور وفاقی حکومت گزشتہ دسمبر ہی سے آزاد کشمیر میں ووٹروں کو پرچا رہی تھی، وزراء یلغار کر رہے تھے اور بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا جا رہا تھا لیکن یہی الزام تو پیپلز پارٹی پر بھی تھا جب وہ مرکز میں حکمران تھی۔ تحریک انصاف کا بھی یہی الزام ہے کہ ’’پری پول رگنگ ‘‘ کی گئی تاہم عمران خان نے ن لیگ کو جتنے پر مبارکباد بھی دی ہے۔ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے تمام دعوے ہوا میں آ گئے۔ ووٹروں کو رشوت دینے کے الزامات کشمیریوں کو پسند نہیں آئیں گے جو آئندہ کیلئے بھی الزام لگانے والوں کا راستہ روک سکتے ہیں۔ کشمیر میں برادری سسٹم بڑا مضبوط ہے ، ہر برادری کا ووٹر اپنی برادری کے امیدوار کو آگے لانا چاہتا ہے۔ برادری اور لسانی تعصب ہر جگہ کام دکھا رہا ہے۔ خیال رہے کہ 1991ء کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی جماعت نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اتنی بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کی ہیں۔ انتخابات میں ووٹوں کا تناسب 65 فیصد سے زائد رہا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مسلم لیگ ن کو الیکشن جیتنے پر مبارک باد دی ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا اگرچہ روایتی طور پر اسلام آباد میں برسر اقتدار جماعت ہی اے جے کے میںانتخابات جیتی ہے، لیکن میں پھر بھی پی ایم ایل این کو جیت پر مبارکباد دینا چاہوں گا۔ اسکے برخلاف اس خطے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پارٹی کے ایک رہنما نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے یہ نتائج بھاری رقوم کے ذریعے حاصل کیے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونیوالے تحریک انصاف کے آزاد کشمیر کے صدر اور اس خطے میں سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود نے بھی اپنے مخالفین پر الیکشن کے دوران پیسوں کی تقسیم کا الزام عائد کیا ہے۔ آزاد کشمیر میں اسلام آباد میں حکمران جماعت کے امیدواروں کی کامیابی کی روایت ہے اور تقریباً ہر انتخابات میں اسلام آباد میں حکمران جماعت کو آزاد کشمیر میں حکومت سازی کا موقع ملتا ہے، تاہم مسلم لیگ (ن) کی توقع سے بڑھ کر کامیابی ایک ایسے موقع پر ان کیلئے سیاسی اور اخلاقی طور پر تقویت کا باعث ہے جب پانامہ لیکس کی تحقیقات کے معاملے پر ان کو حزب اختلاف کے دبائو اور تحریک انصاف کی طرف سے اعلان کردہ احتجاج اور دھرنے کی دھمکی کا سامنا ہے۔ ان انتخابات کا پر امن ہونا طمانیت کا باعث ہے اور پینسٹھ فیصد ٹرن آئوٹ اگر ووٹروں کی گرم جوشی کا نہیں تو دلچسپی کا باعث ضرور گردانا جاسکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران کی جانب سے نتائج کو قبول کر کے مبارکباد کا پیغام تحریک انصاف کی روایتی سیاست کے برعکس ایک خوشگوار اور شکست تسلیم کر کے رائے دہندگان کی رائے کے احترام پر مبنی رویہ ہے جسے مثبت اور صحت مند قرار دیا جاسکتا ہے اور ہماری سیاست میں ضرورت بھی اس امر کی ہے کہ اولاً انتخابات کو ممکنہ طور پر شفاف بنانے کی ذمہ داریاں پوری کی جائیں۔ انتخابات کے انعقاد کے بعد کسی بہت بڑی کھلی دھاندلی کا ٹھوس ثبوت میسر نہ ہو تو سطحی نوعیت کی خامیوں پر احتجاج کی بجائے اسے معمول کا عمل گردان کر انتخابی نتائج کو قبول کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی اور نتائج کو تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے اگر کوئی ٹھوس شواہد موجود ہیں اور وہ اس حد تک پر اعتماد بھی ہے کہ وہ ان ثبوتوں کے بل بوتے پر انتخابات میں دھاندلی ثابت کر سکے گی پھر تو اسے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ایسا نہیں اور عوام نے اسکی گزشتہ پانچ سال کی حکومت کی کارکردگی کا رد عمل دیا ہے تو بہتر ہو گا کہ نتائج کو قبول کیا جائے۔ اگر دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کو پہلے ہی انتخابی نتائج کا اندازہ تھا ۔ پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بار بار اس بیان کو دہرا رہے تھے کہ اگر آزاد کشمیر کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی تو حکومت تحریک انصاف کے دھرنے کو بھول جائیگی۔ ہمارے تئیں پیپلز پارٹی کی جانب سے خفت مٹانے کیلئے ہی دھاندلی کا الزام لگایا گیا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38