کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو قدرت اللہ شہاب صاحب کی تحریر کا ایک اقتباس یاد آ رہا ہے شہاب صاحب لکھتے ہیں ہم پاکستانی صرف اس وجہ سے بنے کہ ہم مسلمان تھے۔اگر افغانستان ، ایران، مصر، عراق اور ترکی اسلام کو خیرآباد کہہ دیں تو پھر بھی وہ افغانی، ایرانی، مصری، عراقی اور ترک ہی رہتے ہیں لیکن ہم اگر اسلام سے راہ فرار اختیار کریں تو پھر پاکستان کا اپنا الگ کوئی وجود نہیں رہتا۔ تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو بلا شبہ افغانستان ، ایران، مصر، عراق اور ترکی یہ سب ممالک اپنا پرشکوہ ماضی، تاریخ اور نسلی پہیچان رکھتے ہیں جبکہ پاکستان کو دیکھا جائے تو یہ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیداوار لگتا ہے اور اول الذکر ممالک کی طرح کسی بھی ایسی قابل ذکر فتح کا ماضی نہیں رکھتا جو بظاہر دنیا کیلیئے کسی خوف یا فکر کا باعث ہو بلکہ تاریخ میں بیشتر شواہد یہ ملتے ہیں کہ اس خطے میں بسنے والوں نے ہمیشہ باہر سے آنے والوں کو خوش آمدید کہا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جس دن سے یہ ملک معرض وجود میں آیا ہے اس دن سے دنیا کی تمام سامراجی قوتیں کیوں اسے کمزور کرنے اور ختم کرنے کے چکروں میں پڑی ہیں۔ اگر گہرائی سے اسکا تجزیہ کریں تو پھر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس سارے کھیل کی اصل وجہ وہ نظریاتی اساس ہے جسکی بنیاد پر بقول شہاب صاحب یہ ملک مملکت خدا داد پاکستان معرض وجود میں آیا اور یہی وہ بات ہے جو دن رات سامراجی قوتوں کے ذہنوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے کیونکہ وہ یہ حقیقت سمجھتی ہیں کہ جو قومیں نسلی بنیاد کے برعکس نظریاتی بنیاد پر معرض وجود میں آتی ہیں اْن سے زیادہ طاقتور اور کوئی قوم نہیں ہو سکتی۔ اس سلسلے میں تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حضور نبی اکرم کے زمانے میں جب اسی نظریاتی اساس کی بنیاد پر رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر مسلم اْمّہ کا قیام وجود میں آیا تو پھر اْس سیلاب کو کوئی نہ روک سکا اور جب یہی اْمّہ اس نظریاتی اساس سے فرار حاصل کر کے رنگ ونسل اور علاقیت کے چکروں میں پڑی تو پھر پوری دنیا میں سامراج کے ہاتھوں جس تباہی سے یہ اْمّہ دوچار ہوئی اور اس کا تسلسل آج بھی جاری ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ماضی قریب پر ایک نظر ڈالیں تو پاکستان کے بعد پچھلے کچھ سالوں سے ترکی وہ دوسرا اسلامی ملک اْبھرا ہے جو اپنے اسلامی تشخص کو اپنی نظریاتی اساس سمجھنا شروع ہوا ہے اور یہ بات کسی صورت سامراجی قوتوں کو ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ نسل کی بنیاد پر پرشکوہ ماضی رکھنے والی اس قوم نے اگر اسلام کی نظریاتی اساس کی رسی کو پکڑ لیا تو پھر شاید یہ قوم جو تاریخ رقم کرے خلافت عثمانیہ کے دور کی یادیں بھی شاید اسکے سامنے بہت مدہم پڑ جائیں لہذا ان دنوں پاکستان کے ساتھ ترکی کے اندر جن سازشوں کا جال بچھایا جا رہا ہے وہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اپنے پچھلے کالم میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ پچھلے ہفتے ترکی میں ہونے والی بغاوت دراصل اس سازش کا آغاز ہے جسکا مقصد ترکی کی حکومت کو صرف اسکے متیعن اہداف سے دور کرنا ہی نہیں بلکہ ترکی کو واضع طبقات میں تقسیم کر کے اسے شکست و ریخت سے دوچار کرنا اور اسکے حصے بخرے کرنا مقصود ہے۔ اسے مسلم اْمّہ کا المیہ کہیے کہ ہم سازشی تھیوریوں کا بڑی جلدی سے شکار ہو جاتے ہیں اور حقیقت کی اصلیت جانے بغیر انجام سے بے خبر ہم اغیار کے پروپیگنڈہ کا اثر لیئے اچھے برے کی تمیز سے قاصر نظر اتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ سامراج نے ہماری اس کمزوری کا بڑی کامیابی سے فائدہ اْٹھایا ہے اس سلسلے میں ذولفقار علی بھٹو کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جب ہنری کیسنجر نے اسے ایٹمی پروگرام پر کہا تھا کہ میں تمہیں عبرت کا نشان بنا دونگا۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھے کیسنجر کامیاب ہو گیا اس میں کیسنجر کا کمال نہیں تھا بلکہ اس میں ہماری ناسمجھی شامل تھی لیکن تاریخ پھر تاریخ ہوتی ہے اس وقت کا نشان عبرت بننے والا آج تاریخ میں ہیرو کے طور پر زندہ ہے اور اس وقت کے اس پر تنقید کرنیوالے بھی ہزار مخالفت کے باوجود کسی نہ کسی پہلو سے اسکی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ تاریخ کے جس موڑ پر ہم بھٹو مرحوم کے دور میں کھڑے تھے کچھ اسی طرح کی صورتحال سے ہم آج بھی دوچار ہیں۔ اس دفعہ ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ اسی اہمیت کے ایک اور منصوبہ ہے جسے پاک چائنہ اکنامک راہداری کے نام سے پکارا جاتا ہے سے روکنا درکار ہے۔ یہ میں نہیں وقت منادی دے رہا ہے کہ جسطرح بھٹو مرحوم کے خلاف ذاتی محرومیوں کی بنا پر مختلف سیاسی جماعتیں بغیر کسی نظریاتی ہم آہنگی صرف ایک نقطہ پر اس لیئے غیر فطری اتحاد میں شامل ہوئی تھیں کہ سب کی خواہش صرف اور صرف بھٹو مرحوم سے چھٹکارا پانا تھا اْسی طرح آج پھر تقریباً تمام سیاسی جماعتیں صرف ایک نقطے پر متفق نظر آرہی ہیں کہ کس طرح نواز شریف سے نجات پائی جائے۔ مجھے اس بحث میں نہیں جانا کہ بھٹو مرحوم کے دور میں اس وقت کی آپس میں مخالفت کی انتہاء کو چھونے والی دو سیاسی جماعتیں جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کس طرح پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم پر اکھٹی ہوئیں اور اب ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کو انتہائی نازیبا القابات سے نوازنے والے کس طرح اکھٹے ہو رہے ہیں لیکن مجھے اتنا ضرور پتہ ہے کہ اس دفعہ بھی قومی مفاد سے زیادہ ذاتی عناد، مفاد اور خواہشات کا بول بالا نظر آتا ہے۔ آج کے دور میں ایسی قومیں بھی ہیں جنکے لیڈر ذاتی مفاد اور عناد سے بالاتر ہو کر قوم کے اجتماعی مفاد کا سوچتے ہیں اور اگر کہیں انکی قوم سے فیصلہ کرتے وقت اگر کوئی غلطی سرزد ہو بھی جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے کے نظریاتی اختلاف سے بالاتر ہو کر اس بات میں جْت جاتے ہیں کہ قوم کے اس فیصلے کی عزت کرتے ہوئے اس سلسلے میں درپیش مسائل اور نقصانات سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔ اسکی تازہ مثال ان دنوں یورپی یونین کے معاملے پر برطانیہ میں ہونیوالا ریفرنڈم ہے۔ یقین جانئیے اپنا ملک ہوتا تو یہاں وہ نظارے دیکھنے کو ملتے کہ خدا پناہ لیکن یہاں برطانیہ میں سب لیڈر اس ایک نقطے پر متفق نظر اتے ہیں کہ کس طرح اکثریت کے فیصلے کو کامیاب کرانا ہے۔ اصل میں ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم میں ہر کوئی بقراط ، سقراط اور اپنی خواہشوں کا اسیر نظر آتا ہے جبکہ ترقی یافتہ قومیں اپنے عوام کے اکثریتی فیصلوں کی قدر کرتی ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38