’’سارا کیس تباہی کی طرف جا رہا ہے ‘‘۔ معلوم نہیں ’’خان صاحب‘‘ کا روحانی کشف کام آیا یا کِسی کی یقین کی سیڑھی پر کھڑے تھے ۔ خود ہی مدعی۔ خود ہی منصف ۔ پھر بھی اتنے وکیل بدل ڈالے ۔ عدالت کے بعد عدالت لگانے اور حتمی فیصلے سے قبل ہر روز فیصلہ سنانے کی عادت بر خاست ہوتی دِکھائی نہیں دیتی جبکہ ریمارکس تھے کہ سڑکوں پر جو ہونا تھا ہوچکا اب فیصلے کا انتظار کریں ۔ ’’ابھی تک سچ واضح نہیں ہوا‘‘ ۔ جیسی حقیقیت بیان کرنے پر ہفتوں خوش رہنے والے لوگ دل گرفتہ تھے ۔ مختلف تبصرے ۔ مختلف قیاس آرائیاں ۔ مگر سب اپنی اپنی ترجیحات کے دائرے میں سمٹے ہوئے ۔پسندیدگی کے حصار میں مقید امکانات ۔ خدشات ۔ اب تو مدت ہوئی ہم ’’مستقبل بینی‘‘ کی مسند بھی سنبھال چُکے ہیں ۔ ’’ایک صاحب‘‘ مُصر تھے کہ تمام سابقہ سیاسی و مالی مقدمات کی رُوداد’’ ریکارڈ روم‘‘ سے نکلوا کر پڑھ لیں ۔ آغازِ کار ایسے ہی خوش کن ریمارکس ۔ اُمید دلاتے تبصرے تھے ۔ حصول انصاف کی تن مُردہ میں نئی روح پُھونکتے۔ پھولوں کی طرح تازہ الفاظ مگر پھر’’ چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘ ۔ ہمیشہ کی طرح اختتام پر ’’رہٹ‘‘ اُلٹا چلنا شروع ہو جاتا تھا ۔ اب کی مرتبہ بھی ؟؟ٹوک دیا کہ ہر معاملے کو صرف حزبِ مخالف کی آنکھ سے نہ دیکھا کریں ۔ ہر بات کو تنقید ی مواد سے بھر کر مایوسی پھیلانے کا مشن ترک کر دیں۔ ’’بڑی عدالت‘‘ کل واضح کر چُکی ہے کہ فریقین ٹھوس حقائق فراہم نہیں کر سکے ۔’’20 کروڑ عوام‘‘ کے بنیادی حقوق کو بھی دیکھنا ہوگا ۔ ہر دور میں عدالتیں عوام کی آخری اُمید کے طور پر مانی گئیں ۔ مگر فیصلے تو شواہد اور قانون کے مطابق ہوتے ہیں ۔ قوت ِنافذہ ہر حکومت کے پاس ہوتی ہے جو الیکشن کے بعد ’’20کروڑ عوام‘‘ کی تقدید کی مالک بنتی ہے ۔ عوام کے بنیادی حقوق کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے ۔ بنیادی حقوق کی لسٹ گنوانے سے اہم ہوگا دیکھنا کہ اِس کی فراہمی پر مامور جماعتوں کے طرز عمل کا ہلکا سا خاکہ۔
’’کراچی کے تاجر‘‘ سراپا شکایت بنے نظر آئے کہ سندھ حکومت ذِمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی ۔’’ تاجر‘‘ تو بہت بڑا درجہ اُدھر تو ’’بھکاریوں‘‘ نے ’’آئی جی‘‘ سے پولیس کی شکایت کر دی کہ اہلکار ایسے چوراہے پر جانے کو کہتے ہیں جہاں کچھ نہیں ملتا ۔ ایکشن لیں ۔ انتہا درجے کی راز داری برتی گئی منظر اِس طرح تھا کہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ بالکل اُس طرح الیکشن کر دئیے ۔ کروائے نہیں گئے بلکہ کر دئیے گئے ۔ لوگ معترض ہوئے کہ ’’باپ نے بیٹے ‘‘ کے ساتھ ہاتھ کر دیا ۔ جماعت کے نہایت کلیدی ۔ طاقتور حصے پر قبضہ کر کے جو رجسٹرڈ ہے ۔عوام کی آواز بننے کی خواہش ظاہر کر تے ہوئے کہا کہ عوام کے ساتھ نا انصافیوں پر خاموش نہیں رہ سکتا ۔ ایک متعین مدت کی صدارت تمام تر اختیارات کے ساتھ ۔ کیا ’’صدر ‘‘عوام کی آواز نہیں ہوتا؟؟
سپوت جوشیلا ہے ۔ یقینا موقع مِلے تو کچھ کر گزرے گا ۔ مگر یہ سب آزادی سے مشروط ہے ۔ ملک میں مہنگائی پر بولنے والے سنیکڑوں ہیں مگر افسوس کہ جو احساس تو رکھتے ہیں مگر اختیار نہیں جیسے حالیہ ریلی میں مطالبہ کر ڈالا کہ عوام ساتھ دیں مطالبات پورے کرائیں گے ۔ ایک صوبہ میں تو حکمرانی کے ریکارڈ ٹوٹنے والے ہیں جبکہ اِس سے قبل پورے ملک پر آپ حکمران تھے ۔ عوام مزید کیا ساتھ دیں۔ پوری صدی آپ کے نام کر دی ۔
’’خیبر پی کے‘‘ میں 35 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں ۔ ’’باچا خان فاوٗنڈیشن‘‘ ۔ لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایات ۔ تعلیمی پالیسی میں خامیاں ۔ معاملات بہت سارے ہیں مگر صرف ایک پہلو کا حوالہ ۔ موضوع بحث طرز عمل ہے ۔ وکیل کا انتخاب کِسی مقدمہ میں "موکل "کی دلچسپی کے لیول کو ظاہر کرتا ہے ۔ خصوصاً سیاسی معاملات میں ۔ ’’خان صاحب‘‘ کے فیصلوں میں دور اندیشی کا فقدان ہے وہاں تکنیکی خامیوں سے پالیسی امور مُبرا نہیں تھے نہ ہیں ۔سندھ سے ’’ممتاز بھٹو‘‘ کا ساتھ خوش آئیند ہے اِس سے بھی بڑی سیاسی کامیابیاں ممکن ہیں اگر کامیابیوں کو سنبھالنے کا ہنر سیکھ لیں ۔ اب تک کی سیاسی پیش رفت۔ کامیابی کے تناسب کو دیکھا جائے تو ایماندارانہ رائے ۔ تجزیہ ہے کہ ’’کرپشن کیسز‘‘ متواتر چلنے کے سب سے بڑے محرک کے طور پر سامنے آئے ۔ لسانی سیاست میں پہلی دراڑ ’’پی ٹی آئی‘‘ نے ڈالی تھی2013کے الیکشن میں ۔ پھر متواتر دھرنوں نے ثابت کر دیا کہ کراچی پر قبضہ کی کہانی جھوٹی ہے ۔ مگر عوام دنگ رہ گئے سُن کر کہ پانامہ لیکس پر اپوزیشن ’’زرداری صاحب‘‘ کی سربراہی میں اکٹھی ہوسکتی ہے ۔ عجیب سا بیان ۔ دو پہلو ۔ باپ کی سربراہی میں اتحاد۔ اُسی سانس میں 4مطالبات پر بیٹے کے رونے کی بات ۔ سب سے بڑی مضحکہ خیز صورتحال ’’3 سال‘‘ سے جن کو ساری دنیا کے سامنے کرپٹ ثابت کرنے میں لگا دئیے انھی سے اتحاد ؟؟
اب چلتے ہیں پنجاب کی طرف جہاں صورتحال نہ صرف بہتر ہے بلکہ دوسرے صوبوں سے بہترین ہے ۔مگر سدھار کے ساتھ کچھ شعبہ جات میں بگاڑ بھی چل رہا ہے کچھ میں تو بدترین حد تک، جیسے خوراک کے بعد ملاوٹ والا دودھ، کُل دودھ ’’30 لاکھ لِٹر‘‘ فروخت ہونے والا ’’43 لاکھ‘‘ ۔ ’’13 لاکھ‘‘ اضافی کی شناخت ہنوز راز میں ہے ۔ پچھلی تفصیلات دے چُکے ۔ تازہ ترین’’11 ہزار‘‘ مریضوں کے لیے صرف 45 وینٹی لیٹرز ۔’’20 کروڑ عوام‘‘ میں سے صرف ’’11ہزار‘‘ کا طبی حال ۔ وہ بھی جو اندراج شدہ ہیں ۔ موضوع بحث کچھ اور ہے ۔’’ وزیر اعلیٰ‘‘ بھلائی سوچتے نہیں بہتری۔ ترقی کے منصوبہ جات پر عمل پیرا بھی رہتے ہیں ۔ اُنھوں نے بجا فرمایا کہ دہائیوں سے رائج فرسودہ نظام بدلنے کا وقت آگیا ۔ باتیں نہیں عملی کام کرنا ہو گا ۔ ’’35 سال‘‘ حکومت میں رہنے کے بعد نظام بدنے کا وقت آگیا یا اگلا الیکشن ؟؟
ملک میں جمہوریت رہنی چاہیے چاہے سب کنگال ہو جائیں ۔ چاہے ترقیاتی بجٹ %50 استعمال نہ ہو سکے ۔ بھوک سے عوام مر جائیں ۔ گیس نہ ملے ۔ بجلی نہ آئے ۔ تمام بچے سکول نہ جا سکیں ۔ نسل در نسل کو پالتی جمہوریت ضروری ہے ۔ جمہوریت فراہم کرتی عوامی سانسوں کی کوئی وُقعت نہیں ۔ چاہے سارے مُلکی اداروں کی نجکاری ہو جائے ۔ کوئی پرواہ نہیں ۔ کِسی کو فِکر نہیں ۔ ’’عوام سے اشرافیہ‘‘ تک سبھی لُوٹ مار میں مصروف ہیں ۔ یہ بنیادی حقوق کہاں فراہم کریں گے جو اپنی جماعتوں میں جمہوریت نافذ نہیں کرسکے ۔ حکومتیں اپنی ناکامی کا دفاع نہ کریں وہ بھی ناقص انداز ۔ بودے استدلال سے اور سب سے بڑھ کر سیاست میں دھمکیوں کے مارٹر گولے چلانا بند کر دیں ۔ اداروں کو آزادانہ کام کرنے دیں ۔ اِسی کا نام جمہوریت ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024