چودھری پرویز الٰہی دکھ سے کہنے لگے کہ ’’میٹرو بس کے آنے سے رکشے اور ویگن والے بیروزگار ہوگئے ہیں‘‘۔اس پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر میٹرو سے رکشا اور ویگن والے بیروزگار ہوگئے ہیں تو رکشہ اور ویگن کے آنے سے تانگے اور گدھا گاڑی والے بیروزگار ہوگئے تھے۔ تانگے اور گدھا گاڑی کے آنے سے ڈولیوں میں بیٹھے مسافروں کو اپنے کندھے پر اٹھاکر منزل تک پہنچانے والے غریب مزدور بیروزگار ہوگئے تھے۔ انسانی حقوق سے بھری موجودہ جدید دنیا میں یہ منظرالمناک اور ناقابل یقین تھاکہ مسافر گاڑی کو گدھے یا گھوڑے کی جگہ غریب انسان کھینچے ۔
انسان پر یہ ظلم تقریبا25برس پہلے تک جنوبی پنجاب میں موجود تھا۔ اُس وقت تک پاکستان میں لیاقت علی خان سمیت ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسی انسان دوست شخصیات حکمرانی کرچکی تھیں۔ جنرل ایوب سمیت جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاء جیسے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرظلم کے خلاف اپنا ڈنڈا چلا چکے تھے لیکن اپنے اپنے انداز میں پاکستانی عوام سے محبت کرنے والے اِن حکمرانوں نے گدھے اور گھوڑے کی جگہ مسافر گاڑیاں کھینچتے اُن غریب پاکستانیوں کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میاں نواز شریف نے 90ء کی دہائی میںاس غیرانسانی پیشے کو پہلی مرتبہ ختم کیا اور اس کی جگہ اُن غریب مزدوروں کو چنگ چی رکشے دیئے۔
اس کے علاوہ 90ء کی دہائی سے پہلے پاکستان کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر دوسری جنگ عظیم کے وقت کی ناکارہ گاڑیاں ٹیکسی کی صورت میں چلتی پھرتی تھیں۔ چلتی پھرتی اس لئے لکھا کہ یہ گاڑیاں دوڑنے کے قابل نہیں تھیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اِن میں سے بہت سی تھوڑا سا چل کر رک جاتیں اور باقی سفر مسافر کو ڈرائیور سے لڑائی جھگڑے کے بعد پیدل ہی طے کرنا پڑتا۔ نواز شریف کی پیلی ٹیکسی سکیم نے اُن بوڑھی گاڑیوں کو اِن کی اصل جگہ عجائب گھر پہنچا دیا۔ سڑکوں سے پرانی مسافر گاڑیاں ختم ہونے کے تین براہِ راست فائدے ہوئے۔ پہلا یہ کہ لوگوں کو نئی گاڑی میں بغیرتکلیف کے آرام دہ سفر کی سہولت ملی‘ دوسرا یہ کہ نئی گاڑیوں کے آنے سے پٹرول کی بچت ہوئی اور تیسرا یہ کہ پرانی گاڑیوں کے انجن سے نکلنے والے دھوئیں سے جو ماحولیاتی آلودگی ہوتی تھی وہ نئی گاڑیوں کے سبب بہت کم رہ گئی۔ ہماری سیاست میں مخالفین کے ہر کام پر تنقید سیاسی ایمان کا پہلا رکن ہے۔ اس فرض کی بجاآوری میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ سورج کو چاند کہا جا رہا ہے یا چاند کو روٹی‘ حالانکہ دونوں طرف اچھی اور بری باتوں کا مکسچر موجود ہوتاہے۔ جمہوری انصاف کا تقاضا ہے کہ مخالفین کی اچھی باتوں کا بھی کبھی نہ کبھی ضرور ذکر کرنا چاہیے۔ جب نوازشریف نے اسلام آباد لاہور موٹروے کا آغاز کیا تو مخالفین نے اپنے روایتی فرائض کی بجاآوری کے لئے موٹروے پر داغ داغ کر فائر کئے۔ دوسری طرف اُس وقت یورپ اور امریکہ کے میڈیا میں اس منصوبے کو بہت اہمیت دی جارہی تھی۔ مثلاً کینیڈا کے اُس وقت کے میڈیا میںپاکستان کو موٹروے کے باعث ایشیاء میں مستقبل کی ترقی کا لیڈر خیال کیا جانے لگا تھا جبکہ یہاں پاکستانی صدر غلام اسحاق خان اور امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد سمیت سب سیاسی مخالفین موٹروے کو پتھر مار رہے تھے۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ ’’یہ پراجیکٹ نواز شریف جیسے مغل شہزادے کی بادشاہانہ سوچ کا عکاس ہے جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘‘۔
یہ علیحدہ بات کہ بعد میں وہی قاضی حسین احمد اسلام آباد لاہور کے ذاتی اور احتجاجی جلوسوںکے سفر اسی موٹروے پر کرتے رہے۔ اب قاضی حسین احمد کے اہلِ خانہ اور جماعت اسلامی کے سب ورکر بھی ذاتی اور جماعتی کاموں کے لیے اسی موٹروے کو استعمال کرتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے جماعت اسلامی نے پاکستان کے قیام اور قائداعظم کی مخالفت کی تھی لیکن اب وہ پاکستان میں اپنی حکمرانی چاہتے ہیں۔
وہ غلام اسحاق خان جو اُس وقت صدر کی حیثیت سے موٹروے کی مخالفت کررہے تھے انہوں نے اپنی لمبی بااختیار سرکاری زندگی میں کبھی اپنے آبائی گائوں کے لئے ایک سڑک تک نہیں بنوائی۔ اُن کے علاقے والوں کا کہنا ہے کہ سڑک بنانے کا جو پراجیکٹ عام دیہاتوں کو دیا جاتا تھا وہ بھی غلام اسحاق خان اپنے آبائی گائوں کے لئے منظور نہیں کرواتے تھے۔ شاید اسی لئے جب غلام اسحاق خان فوت ہوئے تو اُن کے آبائی گائوں میں افسوس کا ماحول نہیں تھا اور انہیں وہاں نہیں دفنایا گیا۔ لاہور، راولپنڈی اسلام آباد میٹرو پر چھوٹے موٹے مخالف سیاست دانوں نے خوب سیاست کی لیکن بلدیاتی انتخابات کے رزلٹ بتاتے ہیں کہ میٹرو کی سہولت نے مسلم لیگ (ن) کے ووٹروں میں اضافہ کیاہے ۔ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو کے بارے میں ایک سابق لیفٹیننٹ جنرل نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’’میں ریٹائرمنٹ کے بعد یورپ اور امریکہ میں رہائش پذیر ہوگیا۔ عرصے بعد پاکستان آیا تو میٹرو کا شور سنا۔ میں نے اور میری بیوی نے اصل حقیقت جاننے کا ارادہ کیا۔ ہم نے اپنی گاڑی کو راولپنڈی میں میٹرو کے پہلے سٹیشن کے پاس پارک کیا اورٹوکن لے کر بس میں سوار ہوگئے۔ تقریباً 45 منٹ کے بعد اسلام آباد میں میٹرو کے آخری سٹیشن پر اترے۔ کچھ دیر کے لئے ہم دونوں اِدھر اُدھر گھومتے رہے اور اپنی بیتی زندگی کو یاد کرکے لطف اندوز ہوتے رہے۔
دوبارہ میٹرو میں بیٹھے اور 45 منٹ کے بعد راولپنڈی میں اترگئے۔ میں اور میری بیوی کسی طرح بھی نواز شریف کے حمایتی نہیں ہیں لیکن میٹرو کے سفر نے ہمیں ناقابل یقین حیرانگی سے دوچار کیا۔ ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ پاکستان میں بھی عالمی سٹینڈرڈ کی ایسی بس سروس شروع ہوگئی ہے‘‘۔ ملتان کے لوگ لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد والوں کی طرح جب سردیوں اور گرمیوں میں صرف 20روپے دیکر ایئر کنڈیشنڈ میٹرو میں سفر کریں گے تو یہ ضرور سوچیں گے کہ پہلے آرام دہ ایئر کنڈیشنڈ گاڑیاں صرف بادشاہوں اور اُن کی اولاد کے لئے ہی ہوتی تھیں لیکن اب ان میں عام پاکستانی بھی سفر کرسکتا ہے۔ وی آئی پی ذہنیت کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ مڈل کلاس اور غریب طبقے کو اپنے برابر برداشت نہیں کرتے ۔
شاید اسی لیے غریب مزدور کو ایئر کنڈیشنڈ بس میں بیٹھا دیکھ کر وی آئی پی کلاس اپنے سٹیٹس کو کے خلاف تھریٹ محسوس کرنے لگا ہے۔مخالفانہ بیانات سے لگتا ہے کہ انہیں ’’میٹرو میٹرو کرگئی تم کو میٹرو کی یہ بات‘‘جیسا فوبیا ہو گیا ہے مگر نواز شریف اور شہباز شریف یہ نعرہ لگانے سے بعض نہیں آئیں گے کہ:
؎تم کتنے دھرنے دوگے
ہر شہر میں میٹرو چلے گی
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38