خط لکھنے کا سلسلہ بڑا پرانا ہے‘ علامہ اقبال اور عطیہ فیضی کے خطوط کا چرچا ہے۔ فیض کے خطوط ملتے ہیں اور پھر غالب کے خطوط کی بڑی اہمیت ہے۔ معروف شاعر پرتو روہیلہ نے غالب کے فارسی خطوط جمع کئے اور پھر انہیں کتابی شکل بھی دی۔ انہوںنے غالب اور غمگین کے فارسی مکتوبات اردو ترجمے کے ساتھ شائع کئے۔
اس کتاب کے مطابق مرزا غالب کئی مقامات پر حضرت غمگین کو پیرومرشد کہہ کر مخاطب کرتے رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے اسے مرزا غالب کی کسر نفسی اور بعض لوگ اسے غالب کی عقیدت کا نام دیتے ہیں۔
لیکن یہ سچ ہے کہ ان خطوط میں غالب کی لفاظی قدرت بیان اور انشاء نگاری اپنی معراج پر نظر آتی ہے۔ مرزا غالب کو حالات کی تنگ دستی کی وجہ سے بھی خطوط کا انداز خوشامدانہ رکھنا پڑتا تھا۔ جیسا کہ نواب محمد علی خان کے لئے لکھے گئے خطوط میں غالب ’’القاب‘‘ یوں لکھتے ہیں:
’’اعلیٰ حضرت نواب صاحب قبلہ و کعبہ و کونین مدظلہ العالیٰ … اور پھر آگے چل کر لکھتے ہیں … اپنی پیشانی کو آپ کے آستانے کی ہوس میں سجدہ ریز اور اپنی سانس کو غم خوری کے اظہارکے ذوق میں زمزمہ خیز کر کے عرض کرتا ہوں کہ جمعہ کے دن جناب عالی کا نامہ منور مقصود خاورستان بن گیا‘‘ سپریم کورٹ میں پیر و مرشد قطری شہزادے کا ایک اور خط ’’نامہ منور‘‘ بن کر آ گیا۔
ماضی میں خطوط لکھنے کے سلسلے میں معروف لبنانی فلاسفر خلیل جبران نے بھی بہت سارے خطوط لکھے۔ ان میں اپنے والد کو لکھے گئے خط کے علاوہ محبوبہ کو لکھے گئے خط پڑھنے والے ہیں۔ ایک خط میں وہ اپنی محبوبہ می زیاد کو لکھتے ہیں ’’مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں ایک پرندہ ہوں اور سرسبز وادیوں اور جنگلات میں محو پرواز ہوں‘‘ پرانے زمانوں میں خط کبوتروں کے ذریعے بھیجنے کا بھی رواج تھا آج کل تو ایک انگلی کی جنبش سے ایس ایم ایس چلا جاتا ہے جبکہ صورتحال یہ ہے کہ بھارت والے آج بھی ہماری طرف سے اڑ کر کوئی کبوتر چلا جائے تو اسے جاسوس سمجھتے ہیں۔
مگر یہ سچ ہے کہ خطوط لکھنے کا سلسلہ پرانا ہے لیکن یہ سارے خطوط غرض و غایت والے ہو کر بھی قطری شہزادے کے خط کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے احمد ندیم قاسمی کے لئے کتاب لکھی اور اس میں پورا باب ’’خطوط کے آئینے میں‘‘ کے نام سے محفوظ کیا۔ ان خطوط کے ذریعے بھی کئی واقعات سامنے آتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی معروف شاعرہ پروین شاکر کی سرپرستی کرتے تھے۔ انہوں نے منصورہ احمد کو بھی اپنے سایہ شفقت میں رکھا‘ لیکن پروفیسر فتح محمد ملک کی کتاب میں شامل خطوط پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان شاعرات کی سرپرستی کس کس طرح کیا کرتے تھے۔ ایک خط میں احمد ندیم قاسمی نے لکھا ہے ’’اگر آپ کی کوششیں بارآور ثابت ہو جائیں تو یہ اس کا بہت اچھا آغاز ہو گا اور اسے آگے پڑھنے کے کئی چانس مل جائیں گے۔ اگر اوپن یونیورسٹی میں آپ کی کوششیں بارآور ثابت ہوں تو مجھے فوراً مطلع فرمائیے گا۔‘‘ … یعنی خطوط کی روشنی میں اس وقت کے واقعات اور حالات کی تصدیق بھی ہو جاتی ہے اور پھر خطوط میں محبت‘ خوشامد‘ چاپلوسی اور سفارش کے عناصر بھی ملا کرتے ہیں مگر خطوط جائیداد کے حساب کتاب‘ کروڑوں کی رقوم اور پھر پیسوں کی ادھر ادھر منتقلی پر مبنی ہو کر اتنے بھاری بھر کم ہو جائیں گے کہ وہ کسی کبوتر کے اٹھانے کے قابل نہیں ہوتے‘ یہ معاملہ قطری شہزادے کے خطوط کی تحریروں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے خط کسی پرندے کی چونچ میں نہیں آ سکتے مگر یہ تاریخ کا ایک حصہ ضرور بن رہے ہیں ۔ بقول مرتضیٰ برلاس؎
مرنے کے بعد آتی رہے تاکہ بوئے یار
کر دینا دفن ساتھ مرے اس کے خط تمام
اور یوں بھی کسی شہزادے کا ذکر کسی خط کے ساتھ آ کر سہانا لگ سکتا ہے مگر یہ عدالتی کارروائی کے لئے اور پھر اتنی بڑی بڑی رقوم کے حساب کتاب پر ہو تو عجب طرح کے احساس میں مبتلا کرتا ہے۔ ایسا احساس جس میں شہزادے اور شہزادیوں کی ایسی کہانی پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو ہمیں بچپن میں نانی دادی سنایا کرتی تھیں۔ ان کہانیوں میں ’’شہزادے‘‘ کا تصور آج کے قطری شہزادے سے مختلف ہوتا تھا۔ وہ شہزادہ کاروباری معاملات میں نہیں الجھتا تھا بلکہ خوبصورتی اور محبت کی علامت تھا۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ عدالتوں کے باہر قطری شہزادے کے دوسرا خط ملنے کے بعد عجیب صورتحال دکھائی دے رہی تھی۔ حکمران جماعت کے وزراء اور اپوزیشن کے نمائندے اپنی اپنی عدالتیں لگا کر بیان بازی کر رہے تھے اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ پورے ملک میں بارش اور برف باری کے بعد حکمران جماعت کے وزراء عوام کی مشکلات کا جائزہ لینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہے ‘ بلکہ پانامہ کیس پر بات کرتے ہیں اور طارق فضل چودھری تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مریم نواز شریف کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے ٹینٹ کا انتظام کر دیا۔ جبکہ طارق فضل چودھری اسلام آباد کی ڈرائی پورٹ روڈ ‘ پیر ودھائی روڈ‘ ٹیکسیشن اور ایکسائز روڈ اور آئی نائن میں ایک سکول بنا دینے کی وجہ سے عوام کی مشکلات کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ دل تو چاہتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو ایک خط لکھوں جس میں لکھوں کہ اپنے وزراء کو تاکید کریں کہ وہ عوام کے لئے وہ کام کریں جن کے لئے انہیں ووٹ دئیے گئے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024